• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ننّھی مُنّی سی جان اِس دنیا میں لانے کے لیے ربّ تعالیٰ نے جس ہستی کا انتخاب کیا، وہ ماں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو عدم سے وجود میں لانے کے لیے ایک عورت ہی کی کوکھ چُنی۔ انسان کی تخلیق کا فیصلہ ہوتے ہی ماں کے وجود کے نہاں خانوں میں ابتدا کا بیج ڈال دیا جاتا ہے، پھر ہڈّی، گوشت، اعصاب اور چہرے کی صورت گری تک مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ پہلے توایک ماں، نو ماہ(قریباً 278 ایّام کی مدّت تک) تخلیق کے مراحل میں بہت سی سختیاں برداشت کرتی ہے، پھر دردِزہ کےانتہائی مشکل مرحلے سے گزرتی ہے، تب کہیں جاکر ایک نئی جان، اُس کے وجود کا حصّہ دنیا میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی تشکیل اور انسانوں کی تخلیق میری بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

کہتے ہیں کہ جان داروں میں انسان کا بچّہ ہی ہے، جو بہت عرصے تک اپنی بقا و نشونما کے لیے والدین کا دستِ نگر ہوتا ہے، جس میں ماں کاحصّہ بلاشبہ کچھ زیادہ ہی ہے۔اسی سبب اللہ نے قرآن میں والدین کی قدرافزائی ان الفاظ میں کی ہے کہ ’’تمہارے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اُس، اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی منزل پر پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے مہربانی سے بات کرو۔‘‘ ماں کی عظمت ہی کے ضمن میں ایک واقعہ ہے کہ نبیِ کریمﷺ کے زمانے میں ایک شخص قریب المرگ تھا، مگرنہ تواُس کی زبان سے کلمہ جاری ہورہا تھا اور نہ ہی اُسے موت آرہی تھی۔ وہ نہایت تکلیف میں تھا۔ 

صحابہؓ میں سے کچھ لوگ نبیِ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئےاور ساری کیفیت کہہ سُنائی۔ جس پر آپﷺ نے پوچھا ’’کیا اُس کی ماں زندہ ہے؟‘‘ بتایا گیا ’’زندہ ہے، مگر اُس سے ناراض ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اُس کی والدہ سے کہو کہ اسے معاف کردے۔‘‘ جب والدہ نے معاف کرنے سے انکار کیا تو نبیِ کریم ﷺ نے صحابہؓ کوحکم دیا کہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کو جلا دیا جائے۔ ماں نے یہ حکم سُنا تو تڑپ کر فوراً اپنے بیٹے کو معاف کردیا اور ماں کے معاف کرتے ہی اُس شخص کی زبان سے کلمہ جاری ہوگیا۔‘‘ تو یہ عظمت و مقام ہے ماں کا۔ تب ہی تو اللہ پاک نے ہمیں بالخصوص ماؤں سے حُسنِ سلوک کا حُکم دیا ہے۔

بےشک، تخلیق کے کرب سےلے کر بچّے کی نشوونما، تعلیم و تربیت تک کے سب مراحل آسان نہیں۔ ماؤں کو اپنی جان مارنی پڑتی ہے۔ اپنا آپ فراموش کرکے اولاد کو فوقیت دینی پڑتی ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ماؤں ہی کی بنیادی ذمّے داری ہے کہ وہ اولاد کی جسمانی ضروریات کے ساتھ ذہنی اور جذباتی تربیت پر بھی بھر پورتوجّہ دیں۔ جیسا کہ ہر دَور کے اپنے کچھ تقاضے ہیں۔ ہرآنے والا دَور ماؤں کے لیے نِت نئے چیلنجز لے کر آرہا ہے، تو والدین اور خاص طور پر ماؤں کو اس حوالے سے شعور و ادراک ہونا چاہیے۔ یوں بھی بچّے ماؤں سے قریب ہوتے ہیں، لیکن ماؤں کو انہیں قریب رکھنے کی شعوری کوشش، پلاننگ بھی جاری رکھنی چاہیے۔ 

جس طرح بچّے کو اپنی کوکھ میں بحفاظت رکھتی، ہر طرح کے حالات سے بچانے کی کوشش کرتی ہیں، بالکل اُسی طرح اُن کے دنیا میں آنے، بالخصوص لڑکپن کو پہنچنے کے بعد ماحول اور معاشرے کے غلط اثرات سے بچانے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ اولاد کو معیاری تعلیم، اچھا کھانا، ہر آسائش مہیّا کرنے کے ساتھ صحیح اورغلط میں تمیز کروانا، اُس کے اندر اچھی، نیک صفات پیدا کرنا بھی ماؤں ہی کی ذمّےداری ہے۔ ماں چاہے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، کم پڑھی لکھی یا اَن پڑھ، اللہ نے ہر ماں میں اولاد کی بہترین تربیت، شخصیت سازی کی خصوصیت رکھی ہے۔ مانا کہ یہ کام آسان نہیں، لیکن اسے ہمیشہ پیار و محبّت، تو کبھی ڈانٹ ڈپٹ سے سرانجام دینا چاہیے۔

اپنے پلّو سے بندھے بچّے کو محبت اور بھرپور وقت دیں۔ بچّے کو اپنی ترجیحِ اوّل بنائیں، اُس کے ساتھ بات کریں، اُس کی باتیں سُنیں، رہنمائی کریں، بھرپور جذباتی سپورٹ دیں۔ اُسے مستقبل کے لیے تیار کریں۔ آج کل کئی مائیں ملازمت پیشہ ہیں، تو اپنی پروفیشنل ذمّےداریوں کے ساتھ گھریلو ذمّےداریاں بھی یاد رکھیں اور خاص طور پر اولاد کو تو ہرگز نظر انداز نہ کریں کہ اولاد کی تربیت ودیکھ بھال آپ کی شرعی ذمّے داری بھی ہے اور اخلاقی بھی۔

حدیثِ مبارکہؐ میں آتا ہے کہ عورت سے اس کے گھر اور بچّوں سےمتعلق پوچھا جائے گا، تو اس سوال کا جواب دینے، اس کسوٹی پر کام یاب ہونے کے لیے اپنی کچھ ترجیحات بنائیں۔ پہلی بات یہ کہ بچّوں میں اوائل عُمری ہی سے اللہ کی محبت اور دینی و اسلامی تعلیمات راسخ کریں۔ معاشرے کا اچھا فرد بنانے کے لیے اچھے آداب سکھائیں، نیز، کتب بینی کی عادت کو فروغ دیں۔ یقیناً ماں کا رُتبہ بہت بڑا، بلند، اس کے پیروں تلے جنّت ہے، مگر یہ مقام جس وجہ سے مِلا ہے، اُسے ہرگز فراموش نہ کریں۔ آپ کے جگرگوشوں کو یہ جنّت اُسی وقت نصیب ہوگی، جب آپ اُنہیں اِسے حاصل کرنے کے قابل بنائیں گی۔