• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم عمران خان 2002ءمیں الیکشن میں اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی ناکامی پر خاصے مایوس تھے، ان کو صرف اپنے آبائی حلقے میانوالی سے کامیابی ملی تھی حالانکہ اس الیکشن میں نہ بےنظیر بھٹو تھیں نہ ہی میاں نواز شریف۔ وہ اپنے سب سے بااعتماد دوست عمر فاروق (گولڈی) کے ساتھ اپنے ’روحانی استاد‘ میاں بشیر کے پاس ان کی خیریت معلوم کرنے گئے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پوچھا، ’’ہماری پارٹی کب جیتے گی‘‘ بقول عمران، ’’انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور پانچ منٹ بعد میری طرف دیکھا اور کہا جب تم ذمہ داری لینے کے قابل ہو جائو گے۔‘‘

آج اس واقعہ کو 20سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اگر آج میاں بشیر زندہ ہوتے تو شاید خان صاحب ان سے ملنے ضرور جاتے۔ اب یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کا جواب وہی ہوتا یا اس سے مختلف مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آج وہ جس مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں جہاں ان کے قریب ترین ساتھی بھی ساتھ چھوڑ کر ادھرادھر دیکھ رہے ہیں ان کو ایک نظر اپنی سیاست اور سیاسی حکمت عملی پر ضرور ڈالنی چاہئے۔ اس وقت جو اُن کے ساتھ کھڑا ہے وہی دراصل ان کا نظریاتی ساتھی ہے باقی سب برساتی مینڈک ہیں۔ ایک نظر انہیں اپنے سیاسی حریفوں کے کیریئر پر بھی ڈالنی چاہئے کیونکہ یہ وقت ان پر بھی آ چکا ہے اسی طرح ان کے ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔

ان کی سیاسی حریف بےنظیر بھٹو نے بہت برا وقت دیکھا ،ایک وقت ایسا بھی آیا تھاکہ ذوالفقار علی بھٹو کولاہور ہائیکورٹ سے پھانسی کی سزا ہوگئی تھی اور پارٹی قیادت ’اگر مگر‘ میں لگی ہوئی تھی ،کارکن خود نکلتے، احتجاج کرتے گرفتار ہوتے اور فوجی عدالتوں سے سزا پاتے۔ بیٹی سیاسی طور پر ناتجربہ کار تھی اور ماں جذباتی مگر سمجھ رہی تھی کہ کون لیڈر کیا کر رہا ہے۔ یہ ایک طویل داستان ہے کہ وقت نے کس طرح پلٹا کھایا مگر بےنظیر کو کبھی کھل کر سیاست کرنے کا موقع نہ مل سکا اور آخر میں انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ دونوں ماں، بیٹی کیلئے سب سے مشکل مرحلہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد وہ تھا جب اس کے ایک سال بعد بڑے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کی تشکیل ہوئی جس میں ایسے رہنما بھی شامل تھے جنہوں نے بھٹو کی مخالفت کی تھی بلکہ کہیں نہ کہیں درپردہ پھانسی کے حامی بھی تھے۔ مگر انہیں سخت دل کے ساتھ 70کلفٹن آنے کی دعوت دی اور پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاسی اتحاد بنا ،تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود اور 1983میں ایک منفرد تحریک چلی جس میں 800کے قریب لوگ مارے گئے۔ خان صاحب کو ایک نظر اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے سیاسی اتار چڑھائو پر بھی ڈالنی چاہئے۔ اگر وہ پنجاب کے ان کے بقول سب سے بڑے ’ڈاکو‘ کو پوری پارٹی کی صدارت دے سکتے ہیں تو میاں صاحب سے اختلافات کے باوجودبات چیت تو ہو سکتی تھی اگر وہ کچھ سابق جرنیلوں کے بجائے چند سیاسی ذہنوں سے مشورہ کرتے۔ ایک بار وہ ’میثاق جمہوریت‘ کی دستاویز پڑھیں ضرور، اس پر عمل ہوا یا نہیں اس کو ابھی رہنے دیں۔ وہ ان سوالات کا جواب ہے جو میاں صاحب اور بےنظیر صاحبہ نے برسوں بعد یہ اعتراف کیا کہ وہ کچھ ’غیر سیاسی‘ لوگوں کے ساتھ ایک دوسرے کیخلاف استعمال ہوئے۔

میاں صاحب بھی 1980تک سیاست سے نابلد تھے اتفاق فونڈری اور جیم خانہ میں کرکٹ کھیلنےکے علاوہ دوسرے مشاغل نہیں تھے۔ انہوں نے بھی جنرل جیلانی کے علاوہ جنرل حمید گل کی ’سیاسی نرسری‘ سے تربیت حاصل کی۔ میاں صاحب نے بھی آگے جا کر طاقتور حلقوں کو چیلنج کیا ،کہیں کامیاب ہوئے کہیں ناکام۔ سب سے زیادہ آرمی چیف انہوں نے ہی لگائے اور تقریباً سب سے تنازع رہا کہیں ان کی غلطی تھی تو کہیں طاقتور حلقوں نے زور زبردستی اور مداخلت کی۔2011سے 2018تک عمران خان تمام تر مقتدر حلقوں کی حمایت کے علاوہ پاکستان کے ایک ایسے طبقہ کو سیاست میں لانے میں کامیاب ہوئے جو سیاست سے دور تھا اور وہ تھے پاکستان کے نوجوان اور خاندان۔ کرکٹ کے لحاظ سے تو وہ میاں صاحب کے بھی ہیرو تھے اور بےنظیر کے بھی۔ مگر وہ ان لوگوں کی ’امید‘ بنے جنہیں آگے کوئی خاص امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ 2008ءتک لوگ صرف ’عمران‘ کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھنے آتے تھے مگر بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وہ مضبوط ’تیسرا آپشن‘ بن کر ابھرے۔

اگر وہ 2014ءمیں پی پی پی سے مذاکرات کرتے تو میاں صاحب کی حکومت مشکل میں آ جاتی۔ مگر کیونکہ خان صاحب کو یہ یقین دلایا جا رہا تھا کہ آپ اقتدار کے قریب ہیں تو انہوں نے دونوں جماعتوں کے خلاف ’سیاسی محاذ‘ کھلا رکھا۔ 2016میں نواز شریف کو پانامہ میں سیاسی طور پر نااہل قرار دیا گیا اور 2017ءمیں سزا ہوئی تو خان صاحب کیلئے اقتدار کے دروازے کھول دیئے گئے اور جنرل باجوہ ڈاکٹر ائن نے عملی شکل لینا شروع کر دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا اپنا بھی بڑا ووٹ بینک بنا مگر وہ شاید اقتدار میں نہ آتے اگر کراچی اور بلوچستان میں ’غیر سیاسی‘ کھیل نہ کھیلا جاتا۔ ان کی ٹوکری میں جو ’فروٹ‘ ڈالے گئے اور جو لوگ پارٹی میں لائے گئے آخر میں انہوں نے ہی اپنا کھیل پہلے اپریل 2022 میں کھیلا اور باقیوں نے اس کے بعد۔

خان صاحب نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح ضرورت سے زیادہ ’غیر سیاسی‘ لوگوں کے مشوروں پر کام کیا نتیجہ کے طور پر وہ عوام سے کٹ گئے اور ان کی پالیسیاں انہیں غیر مقبول بناتی چلی گئیں۔ انہیں عدم اعتماد کے بعد ایک نئی زندگی ملی مگر جلد بازی کے فیصلوں مثلاً قومی اسمبلی سے استعفیٰ، پنجاب، کے پی اسمبلیوں کا خاتمہ، تحریک چلانے کی ناقص حکمت عملی ،دھرنوں سے گرفتاری تک اور پھر 9مئی کے سیاسی خودکش حملوں نے انہیں آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ ایک آرام سے جیتی ہوئی بازی ہارتے نظر آ رہے ہیں۔ مقبولیت موجود ہے قبولیت نظر نہیں آرہی۔ بہتر حکمت عملی انہیں سیاست میں واپس لا سکتی ہے کیونکہ جو غلطی انہوں نے کی وہی غلطیاں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کر رہی ہیں ’غیر سیاسی‘ قوتوں کو اپنی اسپیس دے کر۔

پچھلے نوں محمد سعید صاحب کی ایک کتاب ’پاکستان‘ جو یکم اگست 1947 سے 31دسمبر 1947 تک کے اخباری تراشوں پر مشتمل ہے، میں ایک لیٹر ٹو ایڈیٹر جو پاکستان ٹائمز میں چھپا تھا منجانب عام آدمی نظر سے گزرا جو سیاست دانوں سے ایک اپیل تھی کہ’’جناب والا! میں سیاست دانوں سے ادب سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر اس ملک میں آپ کا احترام ختم ہوگیا تو اس کا آپ کو نقصان نہیں مگر عوام کا بڑا نقصان ہوگا۔ خدارا! پاکستان کی خاطر تاریخ پڑھ کر اندازہ کر لیں۔‘‘

یاد رکھیں جبر کے ذریعے نہ بھٹو ختم ہوا نہ نواز شریف نہ ہی عمران خان ختم ہوگا، سیاسی میدان میں ہی شکست اصل شکست ہوتی ہے باقی آپ سمجھدار ہیں۔

تازہ ترین