• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دفتر جانےکیلئے گھر سے نکلے گاڑی ابھی مرکزی شاہرہ پر آئی ہی تھی کہ کہیں پیچھے سے ہوٹر کی بلندآواز آنے لگی جو مسلسل بج رہا تھا۔ سڑک پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ہر قسم کے ٹریفک نے سڑک کو پوری طرح گھیر رکھا تھا۔ مجھ سمیت غالباً سب کے ذہن میں یہی خدشہ تھا کہ پیچھے کوئی ایمبولینس پھنسی ہوئی ہے، تمام گاڑی والوں نےازراہِ ہمدردی بھرپور کوشش کرکے ایمبولینس کیلئے راستہ کھول دیا اور جب ہوٹر بجاتی پولیس موبائل اپنے پیچھے تیزی سے آتی جھنڈا بردار کار کیلئے راستہ بناتی گزری تو مجھ سمیت تقریباً ان سب کو بھی حیرت ہوئی جنہوں نے ہوٹر کی آواز کو ایمبولینس سمجھ کر راستہ دیا تھا۔ ہوٹر بجاتی پولیس موبائل کے پیچھے سوار محافظ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے آدھے سے زیادہ گاڑی سے باہر لٹک کر دونوں اطراف سے ہاتھوں کے اشارے سے راستہ صاف کرنے اور چلتی گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ جھنڈا بردار کار میں یقیناً کوئی عوامی نمائندہ براجمان ہوگا،جس نے کار کے تمام شیشےتاریک کرکے خود کو پردے کے پیچھے چھپا رکھا تھا۔ میں حیرانی سے سوچ رہا تھا کہ اگر اب کوئی ایمبولینس آگئی تو کیا یہ لوگ جنہوں نے صرف ہوٹر کی آواز سن کر جلدی جلدی راستہ صاف کر دیا تھا،اب پھر ایسا کریں گے۔؟ یہ عوامی نمائندے کس طرح کے ہیں جو عوام سے نہ صرف پردہ کرتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ چلنا بھی پسند نہیں کرتے۔ انہیں عوام کے تحفظ سے کہیں زیادہ اپنے تحفظ کی فکرہے۔

عوامی نمائندگی کے یہ دعویٰ دار چاہے کسی بھی سطح کے ہوں انہیں حفاظتی حصار کی ضرورت پڑتی ہے۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان تو اپنی جگہ پولیس اور دیگر ایسے اداروں کے عہدے داروں کیلئے بھی حفاظت کا بھرپورانتظام ہوتا ہے جنہیں خود حفاظت کی ضرورت ہو وہ کیا کسی کی حفاظت کر یں گے۔؟ سرکاری اہل کار ڈر کر حفاظتی خول میں بند ہو جاتے ہیں۔ ایسے تمام نام نہاد عوامی نمائندے جو عوامی نمائندگی کے باعث وزارت کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوتے ہیں،خود کو ان سے دور کرلیتے ہیں،کس طرح اور کیونکرخود کو عوام کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں؟ عوامی نمائندگی کے تمام دعویٰ دار تب ہی صحیح معنوں میں عوامی نمائندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں جب وہ پوری طرح عوام کے دکھ درد میں شریک ہوں۔

اب الیکشن کی آمد آمد ہے اگر مملکتِ خداداد میں واقعی الیکشن ہوں گے تو کیا یہ عوام کی نمائندگی کرنے والے عوام کے پاس جائیں گے یا اپنے محلوںکے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر الیکشن جیت لیں گے۔ نو مئی کے سانحہ نے ملکی سیاست کا رنگ بدل کر رکھ دیا ہے اب عوامی جلسوںپر حکومت کی جانب سے کسی نہ کسی طرح کی قدغن لگائی جاسکتی ہے اور وہ بھی سیکورٹی کے نام پر ،عوامی نمائندگی کے دعویٰ دار لیڈر کیا اب عوام کے قریب آئیں گے یا الیکشن جیتنے کے بعد حسب سابق، حسب روایت عوام سے آنکھیں پھیر لیں گے۔ ایک شاعر کے بقول ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘

اگر سوچا جائے تو نو مئی کو ہونے والے حادثے نے بہت سے عوامی اعتراضات پر پانی ہی نہیں بلکہ خون بھی پھیر دیا ہے۔ اب ساری سیاسی قیادت مفاہمتی آرڈیننس کو بھول بیٹھی ہے بلکہ مٹی ڈال دی گئی ہے۔ اتنا شدید اور بڑا سانحہ رونما ہوچکا ہےکہ اس پر صرف تعزیت ہی کی جاسکتی ہے۔ اعتراضات کا موقع نہیں۔نو مئی کا سانحہ بہت بڑا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں، اس نے ملکی سیاست کا انداز ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ عالمی سطح پر ملک کے وقار، اہمیت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے، اس حادثے کا شکار ہونے والے متعددلوگ اپنی جان سے گئے اور ایک بڑی تعداد غائب ہے یا پھر جیلوں میں ناگہانی آفت کا شکار ہے۔ ’’ان کا مستقبل کیا ہوگا؟‘‘ کیا یہ کوئی سوچ رہا ہے، قیادت کو اپنی پڑی ہے کارکن کس گنتی میں،افسوس کہ ان غائب اور جیلوں میں موجود کارکنان کے گھر والوں سےکوئی دو میٹھے بول نہیں بول رہا اور نہ ہی ان کی رہائی کیلئے کسی بھی قسم کی کوشش کی جارہی ہے،کارکنان اپنے لیڈروں کو پکار رہے ہیں اور ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ لیڈر جان بچا کر اِدھر اُدھر نکل رہے ہیں۔ یہ تھا عوامی نمائندگی کا حشر جو ٹی وی کیمروں نے پوری طرح نشر کیا، وہ مناظر جو حقیقت پر مبنی اور حقیقت کے عکاس ہی نہیں بلکہ سولہ آنے حقیقت تھے۔ اس سے عوام کو سبق حاصل کرنا چاہئے کہ وہ جن کیلئے اپنی جانیں نثار کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں انہیں ان کی کتنی اور کس قدر پروا ہے۔

اللّٰہ ہمیں، تمام اہل وطن کو عنقریب ایک بڑا ہی اہم اور عظیم موقع دینے والا ہے اور دیکھا جائے تو یہ اللّٰہ کی طرف سے اہل وطن کی آزمائش بھی ہوگی کہ وہ کن لوگوں کو اپنی نمائندگی کا حق دیتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ تمام اہل وطن سوچ سمجھ کر، دیکھ بھال کر فیصلہ کریں۔اگر ہمیں کوئی بھی شخص اپنے وطن کے معیار کے مطابق نظر نہیں آتا ہو تو بے جھجک ہمیں کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہئے اور اگرکچھ اچھے لوگ نظر آتےہیں تو ان کی بھرپور حمایت کرنی چاہئے اور برے لوگوں کا راستہ روکنا ہی حب الوطنی کااہم تقاضاہے۔ اللّٰہ تمام اہل وطن کو انتخاب میں عقل سلیم عطا فرمائے تاکہ وہ نیک اور محب وطن لوگوں کو منتخب کریں۔ملک کو لوٹنے اور توڑنے والوں سے بچیں۔

تازہ ترین