(گزشتہ سے پیوستہ )
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم دوبارہ سنٹرل ٹریننگ کالج جائیں گے اور رائے بہادر میلہ رام کے بارے میں جو پتھر نصب ہےاس کی تحریر پڑھ کر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ سنٹرل ٹریننگ کالج (ایجوکیشن یونیورسٹی ) کو چاہئے کہ اس تاریخی کالج کی ہر چیز کو محفوظ کرے اور اس کالج کی تاریخ اور رائے بہادر لالہ میلہ رام کی تصویر کسی جگہ ضرور لگائے۔ان تینوں تعلیمی اداروں کو لاہور کےبہترین تعلیمی ادارہ بنانے میں کئی شخصیات نے حصہ لیا ہے۔رائے بہادر میلہ رام کا جو بورڈ کسی نے کالج کے کار پورچ سے اتار کر ایک اونچی جگہ پر نصب کر دیا ہے اس کو پڑھنے کی کوشش کی بہرحال اس بورڈ پر جو تحریر انگریزی میں درج ہے وہ یہ ہے۔
His building owes Its origin to the liberality of RIA BAHADUR LALA MELA RAM whose son attends The CENTRAL MODEL SCHOOL towards the cost of providing a suitable building for the Institution in which his son received his education RAI BAHADUR LALA MELA RAM has contributed the munificent sum of
RS 15000 -1887
کیسے کیسے باکمال اور مخلص لوگ تھے جنہوں نے لاہور میں تعلیم کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں جبکہ آج ہم ان کاتذکرہ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے رائے میلہ رام نےاس اسکول اور کالج کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ۔پروفیسر ڈک کے بعد ہیڈن کوپ پانچ برس تک سنٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل رہے اس کے بعد انہوں نے اپنا سارا کام اپنے جانشین پروفیسر نولنٹن کے سپرد کر دیا جو اس سے پہلے سنٹرل اسکول کے ہیڈماسٹر تھے سنٹرل اسکول میں کئی انگریز، ہندو بھی ہیڈماسٹرز رہے پھر کئی نامور مسلمان ہیڈماسٹرز نے چارج سنبھالا، انہوں نے صحیح معنوں میں اسے لاہور کا بہترین تعلیمی ادارہ بنا دیا۔مسٹر نولنٹن 1893ء سے 1919ء تک اس کالج کے پرنسپل رہے بلکہ اپنی تمام عمر اس کالج کو بہتر بنانے میں صرف کر دی ۔انہوں نے کالج کے تمام اساتذہ کو حکم دیا کہ کلاس روم میں جانے سے پہلے تمام اسباق کی تیاری کریں۔
الفاظ و عادات اور اپنے لیکچر کو لکھیں یعنی LESSON NOTESبنائیں یہ مسٹر نولنٹن کی ذہنی اختراع تھی جو آج بھی بعض اساتذہ اپنائے ہوئے ہیں ۔آج کوئی استاد ایسانہیں کرتا !1905ء میں اس کالج میں پہلی بی ٹی کی کلاس شروع ہوئی اس کالج کا پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ 1904ء میں الحاق ہوا اور 1906ء میں پہلا بی ٹی کا امتحان ہوا یہ لاہور کا پہلا کالج تھا جہاں 1921ء میں وڈ ورک کی بھی کلاسیں شروع کر دی گئی تھیں۔اساتذہ ہر طالب علم کو اپنی اولاد سمجھتے تھے ان کے اخلاق و کردار پر بھرپور توجہ دیتے تھے اسکول کے وہ طلبا جو پڑھائی میں کمزور ہوتے تھے ان کے لئے اسکول کے بعد زیرو پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں استاد بغیر کسی معاوضہ کے پڑھاتے تھے پھر کلاس میں کمزور بچوں کو لائق بچوں کےساتھ بٹھایا جاتا تھا تاکہ ان کی تعلیمی کمزوری دور ہو سکے، کیا خوبصورت روایات تھیں۔سنٹر ماڈل اسکول لوئر مال کی تاریخ جی این بٹ ہیڈ ماسٹر کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی جنہوں نے پہلی مرتبہ سیکنڈ شفٹ کا تصور دیا اور یہ پہلا اسکول تھا جہاں سیکنڈ شفٹ شروع ہوئی، تیسری شفٹ شروع کرنے کا ارادہ تھا مگر بعد میں شروع نہیں کی گئی۔ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کا معیار اس لئے متاثر ہوا کہ ان اساتذہ سے جو انگریزوں کے تربیت یافتہ تھے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے کوئی استفادہ نہ کیاگیا، اگر ان سے نئے آنے والے اساتذہ کی تربیت کراتے اور ہیڈماسٹر اسکول کے پرانے اساتذہ میں کسی کو لگایا جاتا اور تیسرے سنٹرل ٹریننگ کالج کا کنٹرول ماضی کی طرح اس ادارے کے پاس رہتا تو آج بھی یہ ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہوتا۔
اس اسکول میں کبھی مولانا ابو الکلام آزاد نے بطور عربی کے استاد کے خدمات انجام دی ہیں ہمیں تو جونیئر ماڈل اسکول،سنٹرل ماڈل اسکول اور سنٹرل ٹریننگ کالج ہمیشہ سے ایک ہی نظر آئے ۔
عزیز قارئین! سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال لاہور کا وہ پہلا اور واحد اسکول تھا جہاں یہ پاس سٹم رائج تھا اسکول کی یہ اور بہت سی شاندار روایات کو لاہور کے باقی اسکولوں نے بھی اپنایا ۔آپ دوران کلاس پانی پینے کے لئے یا واش روم جا رہے ہیں تو اس طالب علم کے پاس لکڑی کا پاس ہوتا تھا اور اسکول پریفیکٹ یا استاد حتیٰ کہ ہیڈماسٹر جی این بٹ اس کو چیک کیا کرتے تھے ہم ایک مرتبہ بغیر پاس کے پانی پینے چلے گئے ہمیں ہمارے ہیڈماسٹر نے پوچھا،ہمارے پاس کوئی PASSنہیں تھا چنانچہ انہوں نے ہماری پٹائی کی اورکلاس میں جاکر استاد سے بھی کہا کہ کوئی بچہ بغیر پاس کے پانی پینے/واش روم نہیں جائے گا حالانکہ مرحوم جی این بٹ امرتسر اور پھر لاہور میں ہمارے نہ صرف ہمسائے تھے بلکہ امرتسر میں ہمارے دادا مولوی ابراہیم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔مگر ڈسپلن کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں کرتے،کیا عظیم لوگ تھے ۔عزیز قارئین !آپ کےلئے یہ بات بھی بڑ ی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے ساتھ جو سنٹرل ماڈل اسکول تھا اس میں تین ایسے مضامین پڑھائے جاتے تھے جو غالباً لاہور کے کسی نارمل اسکول میں نہیں پڑھائے جاتے تھے ۔بجلی کا کام، لوہے کا کام اور لکڑی کا کام، بجلی کے ٹیچر مسٹر مقبول تھے جو ڈی سی (ڈائریکٹ کرنٹ ) بجلی کا کام سکھایا کرتے تھے جس سے طلباء گھر میں بجلی کا تھوڑا بہت کام خود کر لیا کرتے تھے۔(جاری ہے)