• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری تہذیب میں کھیل اور تماشےکی بڑی اہمیت رہی ہے۔ ہم بدل سے گئے ہیں یا ہماری تہذیب نے اپنی حیثیت بدل لی ہے۔ ہماری ثقافت میں جمہور توبہت تھے مگر جمہوریت نہ تھی۔ افراد کی حیثیت ضرور تھی مگر ان کی اہمیت نہ تھی۔ فرنگی نے ہندوستان پر بڑے طریقے سے قبضہ کیا اور پھر ہندوستان کو متحدبھی رکھا۔ کچھ ریاستوں کو آزادی ضرور دی مگر خود مختاری نہ دی۔ پھر دو عالمی جنگوں کے بعد ملکہ برطانیہ کو مشورہ دیا گیا کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے اور اس کی خود مختاری پر قانون سازی کی جائے۔ متحدہ ہندوستان کی جنتا نے آزادی کی جنگ خوب لڑی مگر خود مختاری پر اس کی سیاسی اشرافیہ نے برطانیہ سے سودے بازی کی۔ ہندوستان دو بڑے ملکوں میں بدل گیا۔ دونوں ممالک نے نظام جمہوریت پر یقین کیا۔ پاکستان نام کی ریاست دو حصوں میں اپنی پہچان کرواتی تھی۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ،دونوں حصوں کے درمیان بھارت تھا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے اثاثے اس کو مل نہ سکے۔ کچھ معاملات پر ہندوستان کے لیڈرمہاتما گاندھی نے مداخلت بھی کی مگرولبھ بھائی پٹیل اور نہرو کی وجہ سے معاملات خراب ہی رہے۔ مہاتما گاندھی کو ہندو انتہا پسندنتھو رام گوڈسے نے قتل کر دیا، دو ملک بن تو گئے مگر برطانوی سماج کے زیر سایہ ہی رہے۔

اتنے سال گزرنے کے بعد آج پھر پاکستان کے عوام کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ جب پاکستان کو برطانوی سامراج سے آزادی ملی تو اس وقت ایک بہت بڑی ہجرت ہوئی۔ اس ہجرت کا تصور زمانہ قدیم کے حوالے سے تھا۔ جب مکہ میں مسلمانوں پر زمین تنگ ہوگئی تو اجازت ملی اور لوگ اپنا مال و متاع چھوڑ کر آزادی اور خود مختاری کا خواب لے کر ہجرت کرنے لگے۔ پاکستان میں مہاجرین کا زیادہ دباؤ سندھ، کراچی، پنجاب اور مشرقی پاکستان میں تھا۔ نیا ملک بن چکا تھا۔ جس شخص نے پاکستان کی آزادی میں اپنی پہچان کروائی۔ وہ کراچی کے محمد علی جناح تھے۔ مگر ان کی زندگی پاکستان میں زیادہ نہ تھی پھر اندرون خانہ بھی سازشوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ پاکستان کی افواج برطانوی افواج کے مزاج کی تھی۔ پاکستانی افواج کے پہلے کمان دار جنرل گریسی کا کردار بہت ہی مشکوک سا رہا۔ اس وقت کے دو بااختیار حضرات، جنرل اسکندر مرزا، اور جنرل ایوب خان تھے۔ ملک بھر میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ کی حیثیت مشکوک ہوئی۔ کمزور جمہوریت مگرچلتی رہی۔ پھرا سکندر مرزا کو صدر بنا لیا گیا اور ان کے وزیر دفاع جنرل ایوب خان تھے ،اسکے بعد جمہوریت نے اپنا منہ چھپا لیا۔

دس گیارہ سال کی کمزور جمہوریت بہت ہی بد نام ہو گئی تو ایوب خان نےاسکندر مرزاکی ایما پر یلغار کر دی اور پہلے مارشل لا کا آغاز ہوا۔ اس مارشل لا سرکار کے پاس قبضہ کا جواز نہ تھا۔ ہاں ایک بات ضرور تھی۔ طاقت کا سرچشمہ فوج تھی اور محکوم پاکستان کے عوام تھے۔ ملک کے دونوں حصوں میں اس مارشل لا کے خلاف عوام کا رد عمل بس کمزور سا رہا۔ جنرل ایوب خان نے ملک میں تبدیلیوں کا آغاز کیا اور زیادہ تبدیلیاں مغربی پاکستان کے حصہ میں آئیں۔ مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیا گیا۔ اس کا احساس مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو زیادہ تھا۔ جنرل ایوب خان صدر پاکستان بن گئے اور ملک کیلئے نئے نظام کا سوچا گیا، نوکر شاہی کی مدد اور مشورے سے بنیادی جمہوریت کا نظام لایا گیا۔ یہ نظام امریکی جمہوری نظام سے ملتا جلتا تھا۔ پھر پہلی بار صدر کے انتخاب کیلئے کشمکش شروع ہوئی۔ قائداعظم کی ہمشیرہ کو میدان میں لایا گیا ۔ مگر ہوا کیا۔ مغربی پاکستان میں قائداعظم کی ہمشیرہ کی نہ صرف کردار کشی کی گئی بلکہ بدترین دھاندلی کے ذریعے انہیں الیکشن بھی ہرایا گیا ، عوام کوبے توقیر کر دیا گیا۔

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صدر پاکستان تو بن گئے مگر حسب سابق اندورن خانہ سازشوں کا آغاز ہوا ,1965ء کی جنگ کی منصوبہ بندی کا الزام ایوب خان پر عائد کیا گیا،برسوں بعد معلوم ہوا کہ اس میںاُس زمانہ کے وزیر اور سندھی وڈیرےذوالفقار علی بھٹو بھی فوج کے ساتھ تھے۔ بظاہر تو حملہ بھارت نے کیا اگرچہ کوئی جواز نہ تھا۔ یہ جنگ صرف مغربی پاکستان کی سرحد پر لڑی گئی، ابتدا میں کچھ کامیابی بھی ضرور ملی۔ مگر دو ہفتے کی جنگ کے بعد دونوں ملک تھک گئے، اقوام متحدہ سے رجوع کیا گیا اور جنگ بندی پر راضی ہوئے۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو صدر ایوب خان سے ناراض نظرہوئے۔ ایوب خان کو خطرہ کا احساس ضرور تھا۔ اس نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ آئین کے مطابق اسپیکر ان کی غیر موجودگی میں اپنا کردار ادا کرتا مگر فوج نے مداخلت کی جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاءنفاذ کر دیا۔1970میں مشرقی پاکستان میں خلفشار تھا، اس کے باوجود انتخابات ہوئے تو مجیب الرحمن کی جماعت نے بھاری اکثریت حاصل کی۔مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو اکثریت ملی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مداخلت جاری رکھی۔ جنرل یحییٰ خان نے فیصلہ کیا۔ اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں نہ بلایا جائے۔ اس موقع پر بھٹو مشرقی پاکستان میں تھا، وہ واپس آگیا۔ مشرقی پاکستان پر بھارت نے حملہ کر دیااور قائد کا پاکستان دو لخت ہو گیا ۔ انتقال اقتدار مغربی پاکستان میں ہوا۔ بھٹو پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹراور بعد ازاں صدر بن گئے ۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین