خون انسانی جسم کا بنیادی جزو ہے ۔خون اور اجزائے خون کا استعمال انسانی زندگیاں بچانے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور انسانی جسم کے علاوہ ایسا کوئی مصنوعی نظام یا عمل موجود نہیں جس کے ذریعے خون کا ایک قطرہ بھی بنایا جاسکے۔ اسی لئےاس سال اس دن کا موضوع ’’خون دیں ،پلازما دیں زندگی بانٹیں اکثر بانٹیں ‘‘رکھا گیا ہے ۔جس کا بنیادی مقصد ہے کہ خون عطیہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ خون کے ایک جزو کے عطیہ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے ۔ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے کا مقصد لوگوں میں خون دینے کی آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہے ۔عطیہ کئےگئے خون سے ضرورت مند لوگوں کی جانیں بچائی جاتی ہیں ،اس دن کو ہر سال 14جون کو نو بل انعام یافتہ سائنسدان( کارل لینڈ سیٹز) کی پیدائش (14جون 1868) کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جنہوں نے A,B,O بلڈ گروپنگ سسٹم کو دریافت کیا ،جس کے نتیجے میں 1907میں ریوبن اٹن برگ نے انتقال خون کاپہلا کامیاب تجربہ کیا ۔ہر صحت مند انسان تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے ،سائنسی تحقیق کے مطابق یہ قدرتی عمل ہے کہ 90سے 120دن کے اندر سرخ خلئے ختم یا ضائع ہو جاتے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم یہ عطیہ کردیں تاکہ اس سے قیمتی انسانی زندگیوں کو بچایا جاسکے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال دُنیا میں 112.5ملین بیگ خون اکٹھا کیا جاتا ہے ۔اس میں سے 47%خون ترقی یا فتہ ممالک میں اکٹھا ہو تا ہے ۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں 57%ملکوں میں سو فیصدخون ،بلا معاوضہ عطیہ کرنے والے لوگوں سے لیا جاتا ہے ۔عطیہ کئے گئے خون کے ایک بیگ سے تین اجزا تیار کئے جاتے ہیں جوتھیلیسیمیا،ہیمو فیلیا اور بلڈ کینسر کےمریضوں کو لگائے جاتے ہیں اور اس طرح خون کا ایک بیگ عطیہ کر کے تین انسانی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں ۔قرآنی آیت ہے ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ‘‘۔
پاکستان میں روزانہ اندازاً 8000خون کی بوتلوں کی ضرورت ہو تی ہے جبکہ کل آبادی کا صرف ایک فیصد لوگ خون عطیہ کرتے ہیں جو ناکافی ہے ، جبکہ عطیہ کردہ خون کا 60%تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کے استعمال میں آتا ہے باقی عطیہ کر دہ خون بہت سی طبی پیچید گیوں ،قدرتی آفات اور عمل جراحی کے دوران استعمال ہو تا ہے ۔ڈونر ز کی تعدا د بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ بلڈ ڈونیشن کے رجحان میں اضافہ کرنے کیلئے پرنٹ، الیکٹر ونک اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے تاکہ عوام میں بلڈڈونیشن کے شعور کو اُجاگر کیا جا سکے ۔ میری رائے کے مطابق بلڈ ڈونیشن کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور بلڈڈونرز کی وفاقی و صوبائی سطح پر پذیرائی کی جائے ۔اسی سوچ کے تحت حال ہی میں پنجاب کے نگران وزیِراعلیٰ جناب محسن نقوی نے سندس فاؤنڈیشن لاہور کا دورہ کیا انہوں نے مریضوں کی عیادت کے ساتھ ساتھ بلڈ ڈونرز کی طرف خاص توجہ دیتے ہوئے بلڈ ڈونرز اور بلڈ کیمپس کا اہتمام کرنے والے اداروں، کالجز اور یونیورسٹوں کے سربراہان کو سراہا۔گورنر پنجاب محمد بلیغْ الرحمن ریگولر بلڈ ڈونر ہیں اور تھیلیسیمیا کے مریضوں کیلئے متواتر خون کا عطیہ دیتے رہے ہیں ۔ خون کے عطیہ کی آگاہی مہم میں سب سے پہلے انہوں نےخون کاعطیہ دیا اور خصوصاً نوجوانوں سے اپیل کہ وہ خون کا عطیہ دیں تاکہ تھیلیسمیا ،ہیمو فیلیا اور دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کی زندگیوں کا چراغ روشن رکھا جاسکے ۔گورنر ہائوس کے اسٹاف نے بھی خون کا عطیہ دیا اور اس بات کا اعادہ (عہد ) کیا کہ وہ خون کا عطیہ دیتے رہیںگے۔اس کے لئے وفاقی وصوبائی سطح پر گورنر ،وزرائے اعلیٰ ،پرائم منسٹر اور پر یز یڈنٹ آفسز/ہا ئو سز میں خون کا عطیہ دینے والوںکی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ان اقدامات سے عوام میں خون عطیہ کرنے کا شعور پیدا ہو گا جس سے قیمتی انسانی زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی ۔ہر تندرست فرد جس کی عمر 18سے 60سال کے درمیان ہو ،وہ ہر تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے ۔خون کا عطیہ دینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ،بلکہ بہتر نتائج برآمد ہو تے ہیں ۔مثلاً خون میں چکنائی کی مقدار پر قابو پانے میں مد دملتی ہے اور قوت مدافعت میں اضافہ ہو تا ہے تین مہینے کے اندر نیا خون بن کر جسم کے ذخیرے میں شامل ہو جاتاہے۔ذیا بطیس اور بلند فشار خون کےمریض بھی خون کا عطیہ دے سکتے ہیں ، بشرطیکہ ان کا مرض کنٹرول میں ہو ۔اس موقع پرایک سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کون سے افراد خون کا عطیہ نہیں دے سکتے ؟ تووہ لوگ خون کا عطیہ نہیں دے سکتے جو پھیپھڑوں کے سرطان، امراض میں مبتلا ہیں،جو اعصابی یاجنسی امراض کا شکارہیں ،منشیات کے عادی افراد اور خصوصاًوہ جو انجکشن کے ذریعے نشہ آور اودیہ استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں خون کے مختلف امراض مثلاً ہیمو فیلیا اور تھیلیسیمیا میں مبتلا افراد، جو گزشتہ دودن سے بخار اور نزلہ زکام کا شکار ہوں اور اینٹی بائیو ٹکس کا استعمال کر رہے ہوں۔ تا ہم یہ مریض صحت یاب ہو نے کے 14دن بعد خون کا عطیہ دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے فلا حی ادارے خون کی فراہمی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ان میں سے ایک سندس فائونڈیشن بھی ہے جو جدید طریقے سے خون کی ترسیل کیلئے اپنی مثال آپ ہے سندس فائونڈیشن نہ صرف اپنے رجسٹرڈ تھیلے سیمیا، ہیمو فیلیا کے مریضوں کو بلکہ سرکاری و نجی اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو بھی صاف اور صحت مند خون مفت مہیا کرتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سندس فائونڈیشن جیسے اداروں کو زیادہ سے زیادہ خون اور مالی عطیات دئیے جائیں تاکہ یہ ادارے احسن طریقے سےاپنا کام سر انجام دے سکیں۔ ’’بلڈ ڈونر تیری عظمت کو سلا م ‘‘