• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا پاکستان میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوئے ہیں؟ اس کا جواب بیک وقت اثبات اور نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں عام غربت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن امیر امیر تر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے غریبوں اور امیروں میں تفاوت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہ رجحان عالمی سطح پر بھی موجود ہے،ہندوستان سے لے کر امریکہ تک غریب اور امیر میں فرق بڑھا ہے جس کی کئی وجوہات میں حکومتوں کی پالیسی اور ٹیکنالوجی کا انقلاب ہے۔ پاکستان میں یہ نعرہ عام لگایا جاتا ہے کہ غریبوں کی حالت پہلے سے بدتر ہو چکی ہے لیکن اگر مختلف اشاریوں کو دیکھا جائے تو زمینی صورت حال مختلف نظر آتی ہے۔ بہت سے جائزوں میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فی کس اشیائے صرف ( ٹی وی، ریڈیو، موٹر سائیکل، کاروں وغیرہ)میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ سائیکل سوار موٹر سائیکلوں پر نظر آتے ہیں اور موٹر سائیکل والے صاحبِ کار ہو چکے ہیں۔ اگر آبادی میں چار گنا اضافے کو بھی مد نظر رکھا جائے تو بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹیلی ویژنوں، موٹر سائیکلوں ،کاروں اور دوسری سہولتوں میں چار گنا سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ المختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے تیس چالیس برس میں مطلق غربت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
دراصل غربت اور امارت کی تعریفیں وقت اور مقام کے لحاظ سے بدل جاتی ہیں۔ ساٹھ ستّر کی دہائی تک اگر گھر کے افراد کے پاس ایک سے زیادہ کپڑوں کے جوڑے، جوتے ہوں تو اس کو خوشحال گھرانہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس ڈھنگ کی سائیکل بھی ہو تو اڑوس پڑوس میں اس کی قدر و منزلت بڑھ جاتی تھی۔ اب غربت اور خوشحالی کا معیار بدل گیا ہے۔ پہلے جو اشیائے صرف تعیشات کے زمرے میں آتی تھیں اب وہ ضروریات زندگی بن چکی ہیں۔ پہلے ٹیلیویژن چند خوشحال گھرانوں کے زیر استعمال ہوتا تھا لیکن اب جھگی نشین بھی اس سہولت سے بہرہ ور ہیں۔ اسی طرح سے امارت کے معیار بھی بدل چکے ہیں۔
پاکستان میں پرانی طرح کی روایتی غربت کم ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں معیشت کی گلوبلائزیشن، مشینی پیداوار اور ان سے پیدا ہونے والے تجارتی اور روزگار کے بڑھتے ہوئے مواقع ہیں۔ ستّر کی دہائی تک زیادہ تر آبادی کا انحصار زراعت پر تھا۔ زرعی شعبہ جسمانی محنت (ہل اور بیل وغیرہ) پر چلتا تھا لیکن اب نہ صرف زرعی شعبہ معیشت کا ایک چوتھائی ہو گیا ہے بلکہ اس شعبے میں مشینی کاشت سے پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے۔دیہی علاقوں میں بھی مختلف النوع تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں کئی سو گنا بڑھ گئی ہیں۔ جس گاؤں میں ایک آدھ کریانے کی دکان ہوتی تھی وہاں رنگا رنگ کے درجنوں کاروبار شروع ہو چکے ہیں ۔ اب زمین کے بجائے کاروبار دولت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ دیہات میں (غیر جاگیرداری علاقے میں) گاؤں کے دکاندار اور تاجر مالک کاشت کاروں سے کہیں زیادہ خو شحال ہو چکے ہیں۔ افرادی قوت کی برآمد سے بھی پاکستانی معاشرے کے کئی حصوں میں خوشحالی آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تارکین وطن بیس سے تیس بلین ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جس سے لاکھوں خاندان مستفیض ہوتے ہیں۔
نئی معیشت نے شہروں اور دیہات میں دولت مندوں کا ایک نیا طبقہ پیدا کیا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ دولت مندوں کا نیا طبقہ صرف بدعنوانی، رشوت اور ریاستی ذرائع کے غلط استعمال سے پیدا ہوا ہے۔ اگر کسی بھی شہر کا مشاہدہ کریں تو واضح ہوجاتا ہے کہ غیر قانونی ذرائع سے دولت مند ہونے والا طبقہ کافی محدود ہوتا ہے۔ نئے دولت مندوں کا زیادہ تر طبقہ نئے کاروباری مواقع کو استعمال کرتے ہوئے وجود میں آیا ہے۔ اس وسیع تر ہوتے ہوئے امیر طبقے کی سب سے بڑی بدعنوانی ٹیکسوں کی نادہندگی ہے۔
نئے معاشی منظرنامے میں اصل مسئلہ روایتی غربت اور امارت کا نہیں بلکہ تقسیم دولت ہے مثلاً نئی معیشت میں اگر غریبوں کی حالت میں دس فیصد بہتری آئی ہے تو امیروں کا حاصل کئی سو گنا بڑھا ہے یعنی غریبوں کی حالت تو ’’کچھ‘‘ بہتر ہوئی ہے لیکن دولت مندوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ جب بھی نئی ٹیکنالوجی کا انقلاب آتا ہے تو وہ ایک نئے طبقے کو مالا مال کر دیتا ہے اور باقی آبادی کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ رجحان پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اس لئے امیر اور غریب کے درمیان فرق پہلے سے کئی سو گنا بڑھ گیا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ پاکستان میں دولت کی تقسیم بہت سے ترقی پذیر ممالک کی نسبت کافی بہتر ہے۔ عالمی بینک، اقوام متحدہ اور سی آئی اے کے دولت کے انڈکس کے مطابق جنوبی امریکہ اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں دولت کی تقسیم پاکستان سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔انڈکس کے مطابق تقسیم دولت کے پہلو سے پاکستان درمیانے درجے کا ملک ہے۔
اس وقت ترقی یافتہ ملکوں میں دولت کی تقسیم میں امریکہ کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق ایک فیصد دولت مند ترین طبقے نے ملکی دولت میں اپنا حصہ دگنا کر لیا ہے۔تیس سال پیشتر یہ دولت مند ترین طبقہ امریکہ کی دس فیصد دولت کا مالک تھا اب اس کا حصہ بڑھ کر بیس فیصد ہو گیا ہے۔ امریکہ میں دس فیصد دولت مند ترین لوگ قومی آمدنی کے ساٹھ فیصد حصے کے مالک ہیں۔ تقسیم دولت میں یہ بگاڑ ریگن کے زمانے سے شروع ہوا جب دولت مندوں پر ٹیکس گھٹا دیئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ درمیانے اور غریب طبقے کو ملنے والی سہولتوں میں روز بروز کمی آتی جارہی ہے۔
پاکستان میں تقسیم دولت کئی ترقی پذیر ممالک سے بہتر ہے لیکن یہ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بہت زیادہ خراب ہے۔ اس کی بھی بنیادی وجہ امیر طبقے کی ٹیکس نادہندگی ہے۔ پاکستان جیسے سرمایہ داری نظام میں ریاست تقسیم دولت کو ترقی پسند ٹیکسوں کے ذریعے ہموار کرتی ہے یعنی وہ امیروں سے زیادہ ٹیکس لے کر غریبوں اور درمیانے طبقے کو سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے حکومت بالواسطہ ٹیکس لگاتی ہے جس کا سارا بوجھ غریبوں کے پر پڑتا ہے یعنی دولت مندوں کے ٹیکسوں سے غریبوں کی امداد کے الٹ غریب دولت مندوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ تقسیم دولت کی منصفانہ تقسیم کسی پارٹی کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ ہر حکومت کاروباری، تجارتی، صنعتی اور دوسرے دولت مند طبقوں سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی کوئی استثنیٰ نہیں ہے بلکہ اس حکومت کی تو بنیاد ہی کاروباری طبقہ ہے لیکن یہ پیشگوئی آسانی کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ اگر تقسیم دولت کی موجودہ حالت برقرار رہی تو ملک میں کوئی بہت بڑا انقلاب ناگزیر ہے۔
تازہ ترین