• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ سب مکار اور مطلب پرست ہی نہیں حد درجہ منحوس بھی ہیں۔ ان سبز قدموں میں سے جو کوئی آتا ہے عوام کو مزید بدحال اور نڈھال کر دیتا ہے۔ شاید ان سب کے درمیان مقابلہ ہی اس بات کا ہے کہ عوام کو زیادہ ذلیل و رسوا کون کر سکتا ہے اور دلیل وہی گھسی پٹی کہ ’’حالات خراب ہیں اور خزانہ خالی۔‘‘ ان موالی مسیحائوں سے کوئی تو پوچھے کہ بدصورتو! اگر صورتحال اتنی ہی خراب ہوتی ہے تو تم کیا ’’امب‘‘ یا ’’وڑیویں‘‘ لینے آتے ہو؟ لیکن یہ پورا زور لگا کر آتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ END OF THE DAY عوام کا سوا ستیاناس ہو جائے گا لیکن ان کا ’’ماس‘‘ مزید بڑھ جائے گا۔ عشروں پہلے لاہور میں ایک بھوکا ننگا مجذوب شاعر کملی اوڑھے قریہ قریہ آوارہ پھرا کرتا تھا۔ کسی نے روٹی دی کھا لی..... چرس دی پی لی ..... گالی دی لے لی غرضیکہ ہر اعتبار سے ’’واجب القتل‘‘ تھا لیکن فتوے سے اس لئے بچا رہا کہ ہر قسم کے سوداگروں کے لئے بے ضرر تھا۔ اور تو اور اپنے وقت کے مہمان فلم پروڈیوسر اس کے پاس آتے، چرس کے ہیرے موتی پیش کرتے اور اس سے لازوال نغمے بٹور کے لے جاتے۔ وہ گنہگار اس قدر معصوم تھا کہ اپنے ہی لکھے ہوئے گیتوں سے سرشار ہوتے ہوئے بھی کبھی یہ نہ جان پایا کہ یہ گیت اسی کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس شاعر خانہ خراب کا نام تھا ساغر صدیقی کیا عجب کومبی نیشن ہے کہ ایک طرف ساغر دوسری طرف صدیقی اسی ساغر کے اس شعر پر غور کریں۔
آئو اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
لوگ واقعی بڑے ظالم ہوتے ہیں کہ اپنے اپنے ظالموں کو کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور روشنی تقسیم کرنے والوں کو اندھیروں کے سپرد کر دیتے ہیں کہ یہی بدنصیب معاشروں کا المیہ ہوتا ہے۔ اپنے بہترین لوگوں کو مختلف قسم کی موتوں کے گھاٹ اتار کر ان پر ماتم کرنے والے ظالم لوگ۔ اسی ساغر صدیقی نے لکھا تھا۔
جس شہر میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس شہر کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔
لیکن ہمارے سلطان تو براہ راست خود لوٹتے ہیں، سرکاری طور پر لوٹتے ہیں۔ دن دیہاڑے لوٹتے ہیں اور اس لوٹ مار کا جدید اور لیگل نام ہے ... ’’ڈی ویلیوایشن‘‘ .... ’’روپے کی قدر میں کمی‘‘ سے بڑی لوٹ مار ممکن ہی نہیں۔ دیکھنے کو ہزار کا نوٹ ہزار ہی کا ہوتا ہے لیکن اس کی قوت خرید جون جولائی میں سڑک پر پڑے لاوارث برف کے بلاک کی طرح مسلسل ’’کھرتی‘‘ یعنی پگھلتی رہتی ہے۔ عام آدمی ہزار کے نوٹ پر 1000 لکھا دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے یہ نہیں جانتا کہ وہ نو سو کا .... پھر آٹھ سو کا .... پھر سات سو .... پھر چھ سو کا علیٰ ہذاالقیاس اب 500 کا بھی نہیں رہ گیا۔ پرویز مشرف بارے جو بھی جو کچھ بھی بکتا رہے لیکن اسے کون جھٹلا سکتا ہے کہ اس نے ڈالر کو گریبان سے پکڑ رکھا تھا کیونکہ وہ ڈالروں کا سوداگر نہیں فقط ’’آمر‘‘ تھا۔ بقول ہمارے دوست قاضی آفاق۔
’’پرویز مشرف میں ایک ہی خامی تھی کہ وہ منتخب نہیں تھا اور اس کے بعد والوں میں ایک ہی خوبی ہے کہ وہ منتخب ہیں۔‘‘ آخری سچ یہ کہ یہ انتخاب بھی خواب، سراب، دھوکہ اور فریب ہے جس کا خونی جال اس ملک کی اشرافیہ نے بنا۔ حقیقت یہ کہ پرویز مشرف زمانے والا ہزار روپے کا نوٹ آج ڈھائی سو روپے کا بھی نہیں رہا۔
ساغر صدیقی فقیروں کی کمائی کے لٹنے کو سلطان کی بھول قرار دیتے ہوئے خود بھول گیا کہ اس دھرتی پر وہ وقت بھی آئے گا جب سلاطین کثیر الجہت اور کثیر المقاصد وارداتیں آزمائیں گے اور ’’حسب منشا‘‘ چند لوگوں کے علاوہ باقی سب کو کنگال کرنے پر کمر کس لیں گے لیکن قسم افراط زر کی کہ ہر کسی ہوئی کمر کے اوپر ایک کمر توڑنے والا بھی موجود ہے جس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور جو کاٹھی ڈالتا ہے تو سرکش سے سرکش گھوڑے کا کاٹھ جواب دے جاتا ہے ورنہ بنو امیہ، بنو عباس، سلطنت عثمانیہ، صفویوں اور مغلوں میں سے کسی کا نام و نشان تو کہیں دکھائی دیتا لیکن یہاں تو کہانی ہی کچھ اور ہے۔ صرف 100 سال پہلے کے گیزٹیئیرز تو اٹھا کر دیکھیں کہ تب کے روسائے لاہور میں سے کسی ایک کا کچھ بھی باقی نہیں اور تب جو حشرات الارض کی طرح رینگ رہے ہوں گے .... آج ان کے رنگ روپ دیکھے نہیں جاتے۔ بے شک وہ انسانوں میں دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ ساغر صدیقی نے اپنا بیان اس حد تک محدود رکھا کہ جس شہر میں فقیروں کی کمائی لٹ جائے، اس کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی جبکہ جمہوری سلاطین کے منحوس ادوار میں سب کی کمائیاں ہی نہیں لٹتیں بلکہ اور بہت کچھ بھی ہوتا ہے جو غیر جمہوری سلاطین کے زمانوں میں نہیں ہوتا تھا مثلاً میں نے تاریخ کے کسی حصہ میں کسی بدترین سلطان یا بادشاہ کے کسی دور میں بھی اتنی خود کشیاں نہیں دیکھیں، میں کسی ایسے سلطان یا بادشاہ سے واقف نہیں جو خود اپنا ملک لوٹ کر بیرون ملک کاروبار کرتا ہو یا اس نے احتیاطاً دوسرے ملکوں میں بھی جائیدادیں خرید رکھی ہوں، میں کسی ایسے سلطان سے بھی واقف نہیں جو اپنے ملک کی بجائے غیر ممالک میں زیادہ وقت گزارنے کو ترجیح دیتا ہو۔ میں نے کسی ایسے بدبخت بادشاہ اور سفلے سلطان بارے یہ نہیں سنا کہ وہ اپنی دولت غیر ملکی کرنسی میں رکھنے کو ترجیح دیتا ہو۔ کوئی سلطان ایسا بتائیں جو پٹواریوں سے لے کر سپاہیوں اور کارپوریشن کے خاکروبوں تک ’’اپنے بندے‘‘ بھرتی کرانے کے گندے جرم میں ملوث ہو، ایک آدھ سلطان بھی ایسا نہیں جو ایجنسیوں سے مال بٹورتا ہو اور جس نے ’’نو رتنوں‘‘ میں سارے رشتہ دار بھرتی کر رکھے ہوں .... واہ جمہوری سلطانو واہ! تم تو سلطانہ ڈاکو کے پیروں کی خاک بھی نہیں کہ وہ امیروں کو لوٹ کر غریبوں کے پیٹ بھرتا تھا، لوگ اس سے محبت اور جمہوری سلطانوں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ان کا ایجنڈا .... امیروں کو امیر تر اور غریبوں کو غریب تر کرنا ہے .... اس کے علاوہ کبھی کچھ ہوا ہو تو بتائو؟
تازہ ترین