• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

ارشادِ ربانی ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر یعنی پس نماز پڑھو اپنے رب کے واسطے اور قربانی کرو۔’’قربانی‘‘ کا لفظ قربان سے نکلا ہے، عربی زبان میں قربانی اس عمل کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے ،خواہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات، لیکن عرفِ عام میں یہ لفظ قربانی کے جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے ۔چناں چہ قرآن کریم میں یہ لفظ چند جگہ مستعمل ہوا ہے اور اکثر مواقع پرقربانی کے جانور کا ذبیحہ ہی مراد ہے ۔

رسول اکرم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے: قربانی کے دن اللہ کو قربانی سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا۔ نیز فرمایا: قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے یہاں سندقبولیت حاصل کر لیتا ہے،اس لیے تم قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔(ترمذی)

حضرت زید بن ارقم ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے صحابۂ کرامؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟آپﷺ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔ عرض کیاگیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) آپ ﷺنےفرمایا: اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی۔( مشکوٰۃ۱۲۹ )

حضرت اِبن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عید الاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتے دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو۔ (الترغیب والترہیب)

حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہؓ سے فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا! اللہ کے رسولﷺ! یہ فضیلت ہم اہل بیت ؓ کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔( الترغیب والترہیب)

حضرت علیؓ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (حضرت فاطمہ ؓ سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو، اِس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا۔

حضرت ابوسعیدؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لیے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے“۔(ایضاً)

حضرت علیؓسے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی اُمید رَکھو، اِس لیے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے، لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔ (ایضاً)

حضرت اِبن عباس ؓ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدِیک اُس اُونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دِن ذبح کیا گیا۔(ایضاً )

حضرت ابو ہریرہؓ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رَکھتا ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہمارِی عیدگاہ میں نہ آئے۔(ایضاً)

حضرت حسین بن علی ؓ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی۔(ایضاً )

قربانی جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہے ، یہ ایثار وجاں نثاری ، تقویٰ وطہارت ،مومنانہ صورت وسیرت اور مجاہدانہ کردار کا حامل ہے ،اس لئے قربانی کرنے والوں کو اپنی نیت خالص اور قربانی لوجہ اللہ کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ: بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اسی ایک اللہ کے لیے ہے جو کل جہانوں کا پروردگار ہے ۔(سورۃ الانعام:162)

دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ترجمہ: اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون ہر گز نہیں پہنچتا، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔(سورۃالحج :37) اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور شیطانی قوتوں کو ناکا م و نامرادبنانا ہے اور قربانی کی اصل روح انسان میں تقویٰ کو پروان چڑھانا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ترجمہ: بے شک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ۔(صحیح مسلم)

دین اسلام میں قربانی کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کے بعد اب قربانی کے متعلق مسائل کو ذکر کیا جاتا ہے، ان مسائل کا علم حاصل کئے بغیر قربانی کی عبادت انجام دینے میں کمی کوتاہی کا خطرہ باقی رہتا ہے۔

قربانی کس پر واجب ہے:

مسئلہ: قربانی ہر اس عاقل بالغ مقیم مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہے یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا سامان ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے۔یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا رہائش کے مکان سے زائد مکانات یا جائیدادیں وغیرہ ہوں یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہوجسکی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو یا مال تجارت، شیئر ز وغیرہ ہوں تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے۔(ردالمحتار، کتاب الاضحیۃ)

مسئلہ: قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے نصاب کا مالک ہوجائے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔(فتاویٰ ہندیہ)

مسئلہ: قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن بھی کسی صورت سے نصاب کے برابر مال یا ضرورت سے زائد سامان کا مالک ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔(ردالمحتار، کتاب الاضحیۃ)

مسئلہ: جس کے پاس رہائش کے مکان کے علاوہ زائد مکان موجود ہے، خواہ تجارت کیلئے ہو یا نہ ہو، ضروری مکان کے علاوہ پلاٹ/مکانات ہیں، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں، تو یہ شخص قربانی کے حق میں صاحب نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے۔(ہندیہ، کتاب الاضحیۃ)

مسئلہ: تجارتی سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو اگر ساڑھے باون(521/2) تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اسکے مالک پر قربانی واجب ہوگی۔(بدائع)

کتنی قربانیاں واجب ہیں:

مسئلہ: صاحب نصاب پر ایک ہی قربانی واجب ہوتی ہے، خواہ کتنا ہی بڑا مالدار ہو خواہ کتنے ہی نصاب کا مالک ہو ایک آدمی پر ایک ہی حصہ قربانی کرنا لازم ہے۔ چاہے ایک بکرایا بکری یادنبہ یا دنبی یا بھیڑ سے قربانی کرے یا گائے بھینس اور اونٹ میں سے ساتواں حصہ لےکر قربانی کرے دونوں صورتیں درست ہیں۔(درالمختار)

کرایہ پردی ہوئی چیز:

مسئلہ: اگر کرایہ پردی ہوئی چیز کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو اس کی وجہ سے ایک حصہ قربانی کرنا واجب ہوگا۔ کیونکہ کرایہ پردی ہوئی چیز جب تک کرایہ پر ہے حاجت اصلیہ سے زائد ہے۔(فتاویٰ قاضی خان)

اگرصاحبِ نصاب قربانی کے ایام میں مرگیا:

مسئلہ: کسی پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ قربانی کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی وہ مرگیا تو اس سے قربانی ساقط ہوگئی، قربانی کے لئے وصیت کرنا اور وارثوں کے لئے اس کی طرف سے قربانی کرنا لازم نہیں ہوگا۔(ہندیہ، کتاب الاضحیۃ)

اگر صاحب نصاب غریب ہوگیا:

مسئلہ: کسی پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ قربانی کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی وہ غریب ہوگیا، تو اس سے قربانی ساقط ہوجائے گی۔(فتاویٰ عالمگیری)

اگرغریب قربانی کے ایام میں امیر ہوگیا:

مسئلہ: اگر کسی غریب آدمی کو ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کہیں سے مال دستیاب ہوگیا اور وہ صاحب نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔(ہندیہ)

اگرغریب نے قربانی کی نیت سےجانور خریدا:

مسئلہ: اگر غریب آدمی نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہوگی۔(درالمختار)

جس پرصدقۂ فطر واجب ہے تو قربانی بھی واجب ہے:

مسئلہ: جس پر صدقۂ فطر واجب ہے، اس پر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے، اور اگر اتنا مال نہ ہو جتنے کے ہونے سے صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر قربانی کرے تو ثواب ملے گا۔(شامی)

ضرورت اصلیہ:

مسئلہ: ضرورت اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان یا آبرو سے متعلق ہو، یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت و آبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً کھانا پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہل صنعت و حرفت کے لیے اس کے پیشہ کے اوز ار ضرورت اصلیہ میں داخل ہیں البتہ بڑی بڑی دیگیں، بڑے بڑے فرش، شامیانے، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ، ٹیلی ویژن، وی سی آر وغیرہ ضرورت اصلیہ میں داخل نہیں ہیں، اگر ان چیزوں کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں گی تو ایسے آدمی پر قربانی واجب ہوگی۔ (شامی)

صاحبِ نصاب عورت پر قربانی واجب ہے:

مسئلہ: اگر عاقل بالغ مقیم عورت صاحب نصاب ہے، یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنی چیزیں ہیں کہ ان کی مالیت ساڑھے باون (521/2) تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو ایسی عورت پر قربانی واجب ہے۔(ہندیۃ، کتاب الاضحیۃ)

عورت کا ذبیحہ:

مسئلہ: مسلمان عورتوں کا ذبح کیا ہوا جانور بلاشبہ حلال ہے، اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ (ہندیۃ)

مسئلہ: البتہ چونکہ عورتیں اس کام کو کم جانتی ہیں، اور دل کمزور ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہ چلنے کا احتمال ہے، اس لئے بلا ضرورت ذبح کا کام عورتوں کے سپرد کرنا مناسب نہیں۔(ہندیۃ) (جاری ہے)

اقراء سے مزید