سال بھر کا معاشی جائزہ پیش کرنے والوں کے ماتھے پہ نہ شرمندگی کے قطرے تھے اور یہ بتاتے ہوئے کہ ملکی معیشت کتنی دگرگوں رہی ہے ان کی آواز میں لرزش بھی نہیں تھی۔ وہ اعدادو شمار کے گورکھ دھندے کی راکھ کریدتے ہوئے مشاقی سے کام لے رہے تھے۔ گھروں میں بیٹھے ریٹائرڈ لوگ یہ سن کر نہال ہورہے تھے کہ ان کی پنشن میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کئی سال سے گھی کے ڈبے سے روٹی لگا کر کھاتے ہوئے گھی کا ذائقہ محسوس کرنے والے، خوش فہم تھے کہ اب ڈبہ کھل جائے گا ،بجلی آجائے گی اب پاکستان ساری دنیاکیلئے فری مارکیٹ ہوگا۔ مگر ان ملکوں میں ہماری خوراک نہیں ہے۔ مگر پھر ریٹائرڈ لوگ 17فیصد پنشن میں اضافے کا تجزیہ اور روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے چیخ پڑے۔ یہ تو Cheating ہے۔ میں نے پانی کا گلاس دے کر چپ کرنے کیلئے کہاوہ اگریہ بھی نہ دیتے قیمتیں تو بڑھنا ہی تھیں۔ پھر آپ کیا کرتے ؟آگے میں نے کہا کہ اس وقت تولیدی اضافہ 3.6فیصد پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں 1960ء میں فیملی پلاننگ شروع ہوئی تھی۔ 1963ء میں میں نے مولانا جعفر شاہ پھلواروی سے اسلامی نقطہ نظر سے بچوں کی پیدائش میں وقفے پر مضمون لکھوائے تھے۔ ایوب خان اور تھوڑا سا بینظیر کے زمانے میں فرق پڑا تھا۔ ضیاء الحق کے زمانے سے لے کر اب تک سب کوآزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہیں فتویٰ دیں۔ اب نئے آنے والے ریاستِ مدینہ کے نعرے کی جگہ کوئی ایسا نسخہ لائیں کہ بچے گلیوں میں رلتے نہ پھریں۔ ہمارے ملک میں فیملی پلاننگ کو مردانگی کے خلاف کہتے ہوئے ہمیشہ سے رد کرتے رہے ہیں۔ صرف پڑھے لکھے لوگ خود دو بچوں کے بعد پلاننگ کرتے ہیں۔ ورنہ نیلم ویلی سے لے کر سارے دیہات میں عورتیں بڑے فخر سے بتاتی ہیں کہ ہمارے چودہ بچے ہیں۔ اس سےحکومت کی نہیں، غیر سرکاری تنظیموں اور صحت اور غذائیت سے متعلق عالمی اداروں کی کارکردگی پر حرف آتا ہے۔ شعیب سلطان صاحب اور ڈاکٹر امجد ثاقب جو جگہ جگہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنے گھرانوں کوصحت اور ہنر کی تعلیم دی ہے تو یہ اعدادو شمار صرف رپورٹ لکھنے کیلئے ہوتے ہیں۔ اب تو ایک سال میں کروڑوں بچوں کی پیدائش کا مطلب ہے کہ جتنی مرضی برآمدات اور فصلیں بڑھالیں ہر سال کھانے کیلئے اتنے کروڑوں لوگوں کیلئے کونسا من وسلویٰ اترے گا۔ ہم آخر مذہبی ملک ایران کی مثال کیوں سامنے نہیں رکھتے۔ ہم دیگر غریب ممالک بنگلہ دیش کی فیملی پلاننگ کی کامیابی کو بس نقل ہی کرلیں۔
میں جب مالیات کے وزیر کو بولتے سنتی ہوں۔ تو مجھے بی بی سی پر ان کے انٹرویو میں پسینہ پونچھتی شکل سامنے آجاتی ہے حالانکہ پاکستان کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ان دو گھنٹوں میں انہیں یہ کہتے ہوئے بھی پسینہ نہیں آیا کہ ٹیکس بڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ بجٹ، اگست تک، ان کی حکومت کیلئے ہے کہ نگراں حکومت کیلئے اور اس کے بعد کیا کہیں کہ ہر حکومت اپنا وزیر مالیات لے کر آتی ہے جانے والے دور میں چھ وزیر مالیات رسوا ہوکر گئے تھے۔ آئی ایم ایف کی جھوٹی تسلیاں کب تک۔ آپ لوگوں سے بچت اور سادگی کی تلقین کرتے ہوئے اتنی گرمی میں سوٹ پہنے وزیروں کو پاکستانی لباس میں بلاول کی طرح کام کرنے کی ترغیب نہیں دے سکتے۔ رات کو 8بجے دکانوں کو بند کرنے کا نسخہ کاغذ کی کشتی کی طرح ہر دفعہ ڈوب جاتا ہے۔ پاکستان میںڈرامے بھی دس بجے اس لئے شروع کئے جاتے ہیں کہ تاجر لوگ اپنا کاروبار بند کرکے (جس میں چھوٹے دکاندار بھی شامل ہیں) نہا دھو کر پھر شادیوں، پارٹیوں اور ڈرامہ دیکھنے جاتے ہیں اور دس بجے کا وقت انہی لوگوں نے مقرر کیا ہے۔ ڈرامے بھی ان ہی کے مذاق کے مطابق پیش کئے جاتے ہیں۔ ڈرامہ دیکھنے کے بعد حسبِ توفیق لکشمی چوک یا بڑے ہوٹلوں کا رخ کرتے ہیں۔ آپ نے ہی پاکستان کا یہ کلچر بنایا ہے۔ انڈیا میں پہلے دن سے سارے بازار سات بجے اور دنیا بھر میں چھ بجے بند ہو جاتے ہیں۔ انگلینڈ اور امریکہ میں دفاتر مع صدر اور وزیراعظم کے ساڑھے چار بجے عمومی طور پر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں بارہ بجے رات کو اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے۔
سب سے ہولناک بات اس بجٹ میں یہ ہے کہ بچوں کیلئے پرورش پانے والی اشیاء کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے جو کسی ملک میں نہیں ہوتا۔ فی کس آمدنی میں بھی 11.2فیصد کمی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر مانا جارہا ہے کہ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری جس کے وعدے، ہر دورے کے بعد، وزیراعظم نے کئے تھے اس میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ ستم تو یہ ہے کہ آرٹسٹوں سمیت پانچ سیکٹروں میں رقم کا اعلان کیا گیا ہے مگر مسودات میں ان کا ذکر ہی نہیں ہے۔ آپ سب مالیات سے متعلق لوگوں نے بارٹر تجارت کیلئے جن ممالک کا اعلان کیا ہے ان میں انڈیا شامل نہیں۔ غریب کیلئے دال چاول اور روٹی کی ضرورت ہے، روسی اور چینی کھانے تو غریب کیلئے نہیں ہیں۔ سیاسی اور وہ بھی پچاس سے اوپر برسوں سے یہ لڑائی اور نفرتیں دونوں طرف پھیلانے میں دونوں جانب سے مذہبی اور سیاسی رہنما (اگر انہیں رہنما سمجھا جاسکے) پیش پیش رہے ہیں۔ البتہ پاکستان میں بچوں کی تعداد بڑھنے کے علاوہ، انسانی اور حیوانی سطح پر گدھوں کی تعداد بڑھی ہے۔