جائز خواہشیں پالنا اور ان کے حصول کیلئے جائز کوششیں کرنا نہ صرف ہر انسان کا بنیادی حق ہے بلکہ اسکی ترقی کیلئے نہایت ضروری بھی ہے۔تاہم خود کو عقلِ کل سمجھنا یا ہر فن مولا سمجھتے ہوئے ایسے کاموں میں ٹانگ اڑانا جن کی صلاحیت قدرت نے نہ دی ہو، حماقت کے زمرے میں آتا ہے۔ عمران خان بلا شبہ کرکٹ کے میدان کا ایک لیجنڈ کھلاڑی رہا اور ورلڈ کپ جیتنے کے بعد تو وہ پوری قوم کا غیر متنازع ہیرو بن گیاتھا۔ اس کے بعد اس کے رفاہی کاموں، جیسے شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے قیام ،نے اسےعوام کی محبت اور عقیدت کا مرکز بنا دیا تھا۔ ان دونوں خصوصیات یعنی ایک بہترین کھلاڑی اور سوشل ورکر کی حیثیت سے اسےجو غیر متنازع ہیرو شپ کا مقام ملا تھا۔ اس سے زیادہ محترم اور معزز حیثیت کسی بھی انسان کو نہیں مل سکتی ۔کپتان کو کافی عرصے سے سیاست کے خارزار میں دھکیلنے کی کوششیں ہوتی رہیں، کبھی جنرل ضیاء کی طرف سے اور کبھی میاں نواز شریف کی جانب سے لیکن وہ تمام تر ترغیبات سے بچتا رہا اور اس کا سیاست میں آنے سے گریز ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ سیاست میں آنے کے بعد اسکی غیر متنازع ہیرو شپ ایک متنازعہ شخصیت میں تبدیل ہو سکتی تھی۔ جو نہ صرف خود اس کیلئے بلکہ اس کے اچھے رفاہی کاموں کیلئےبھی نقصان دہ ثابت ہوئی ۔ عمران خان کے علاوہ دنیا کے دیگر بڑے لیجنڈری کھلاڑیوں ، برازیل کے پیلے، ارجنٹائن کے ڈیگو میراڈونا، ویسٹ انڈیز کے سرگیری سوبرز، سر ویوین رچرڈز اور انڈیا کے کپل دیو یا سچن ٹنڈولکر کی بھی اپنے اپنے ملکوں میں وہی حیثیت تھی جو پاکستان میں عمران خان کی تھی۔ لیکن کسی نے بھی سیاست کے خارزار میں اترنے کی کوشش نہ کی ۔ حالانکہ ان میں سے کئی ایک کو اعزازی طور پر سینٹ کی ممبر شپ بھی عطا کی گئی۔ مگر پھر بھی وہ عملی سیاست میں نہ آئے۔ کیونکہ وہ صدقِ دل سے سمجھتے تھے کہ وہ سیاست کے کھیل کی فطری صلاحیتیں لے کر پیدا نہیں ہوئے اور کسی عہدے کے لالچ یا ہوس ِ اقتدار میں وہ اپنی اس عزّت اور احترام سے بھی محروم ہو سکتے ہیں، جو انہوں نے بطورِ کھلاڑی برسوں کی ریاضت اور محنت سے حاصل کی تھی۔ خود عمران خان بڑے فخر سے یہ کہتے رہے ہیں کہ خدا نے انہیں عزّت ، شہرت اور دولت غرض کہ ہر نعمت سے نوازا ۔ خدا کی اس کرم نوازی کا یہ تقاضا تھا کہ وہ اسی شہرت اور نیک نامی پر اکتفا کرتے ہوئے خدمتِ خلق جاری رکھتے۔ پاکستانی عوام ان بعض ’’مشاغل‘‘ سے واقف ہونے کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے لیکن سیاست ایک ایسا میدان ہے جس میں آنے کے بعد کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی ، پبلک پراپرٹی بن جاتی ہے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی ،جہاں انسان کی پرائیویسی کا بے حد احترام کیا جاتا ہے، جب کوئی شخص سیاست کے میدان میں آتا ہے تو اسے بل کلنٹن اور ڈونلڈٹرمپ کی طرح ذاتی زندگی کی پرائیویسی کا حساب بھی دینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے خدمتِ خلق کے کاموں پر بھی تنقیدی جائزے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے سیاسی نظریات اور تضادات پر منفی تبصرے بھی اسے ایک غیر متنازع شخصیت سے متنازع شخصیت بنا دیتے ہیں۔ یوں قدرت نے اس پر جو احسانا ت کئے ہوتے ہیں وہ سیاست میں آنے کے بعد کفرانِ نعمت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ دانشمندوں کا قول ہے کہ خدا نعمتیں دےکر بندے کا ظرف آزماتا ہے ۔ حریص اور لالچی لوگ زیادہ کے چکّر میں ایسے کاموں میں پڑ جاتے ہیں جہاں ان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ اپنے پہلے مقام سے بھی نیچے گر جاتے ہیں۔ ویسے بھی جسمانی مشقت کرنے والے افراد جیسے فوجی اور کھلاڑی ذہنی طور پر اتنے تیز نہیں ہوتے کہ وہ سیاست جیسے پیچیدہ کھیل کی گتھیاں سُلجھا سکیں ۔ میں نے تاریخ اور سیاست کے طالبعلم ہونے کی حیثیت سے دو افراد کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوا۔ اُن میں سے ایک پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے عمران خان تھے۔ وکلاء کی تحریک کے دوران میرا یہ خیال تھا کہ جتنی عزّت افتخار چوہدری کو ملی ہے اس کے بعد انہیں چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی قبول کرنے کی بجائے ملک میں قانون کی عملداری کی تحریک کی داغ بیل ڈالنی چاہئے مگر انہوں نے بھی عمران خان کی طرح کفرانِ نعمت کرتے ہوئے نہ صرف چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہونا پسند کیا بلکہ ملک میں ایک طرح سے عدالتی مارشل لا نافذ کردیا اور قدرت نے ا نہیں جو غیر متنازع شہرت دی تھی اسے متنازع بنا کر ہمیشہ کیلئے بدنامی کے اندھیرے میں کھو گئے۔ یہی کچھ عمران خان نے کیا، جمہوریت اور انصاف کا نام لے کر کبھی فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی حمایت کی ، کبھی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر غیر سیاسی طاقتوں کا سہارا لے کر اقتدار حاصل کیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہر غیر جمہوری طریقے سے اپنے مخالفین کو زیر کیا، صحافت اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں ، معیشت کا بھرکس نکال دیا۔ اقتدار سے جانے کے بعد اسمبلیوں سے استعفے جیسے، سیاسی لحاظ سے غیر دانشمندانہ، فیصلے کئے۔اپنی حکومت کے خاتمے کے متضاد دعوے کئے ، دن رات جھوٹ بولے اور آخر میں اپنی سیاسی تہی دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی اداروں پر حملے شروع کر دیے ۔ یوں اپوزیشن ہو یا حکومت ہر لحاظ سے خود کو ایک متکّبر مگر نا اہل شخص ثابت کردیا۔ ایسے حالات میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ’’ کاش وہ سیاست میں نہ آتا‘‘ ۔