• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کم و بیش ڈھائی سوسیاسی جماعتیں ہیں جن میں سے بیشتر کاغذی ہیں البتہ ان میں سے140جماعتوں نے قانونی تقاضے پورے کر کے اپنے آپ کو الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹر کرا لیا ہے سیاسی جماعتوں کی دوڑ میں پاکستان 167جمہوری ممالک میں 105ویں نمبر ہے پاکستان کے اقتدار میں عملاً 10، 12سیاسی جماعتوں کا عمل دخل ہے جب کہ پورے ملک کی سیاست دو تین جماعتوں کے گرد گھومتی ہے بعض اوقات ملک دو جماعتی نظام کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے لیکن پاکستان ’’سیاسی حادثات ‘‘ کا شکار ہونے کی وجہ سے کئی بار جمہوریت کی پٹری سے اتر چکا ہے لیکن ہمارے پڑوس میں بھارت جو دنیا کا سب بڑا جمہوری ملک ہونے کادعویدار ہے ، میں پاکستان سے یکسر صورت حال مختلف ہے بھارت کے الیکشن کمیشن کی مئی 2023ء کی شائع کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق 6قومی ،54ریاستی اور2597غیر تسلیم شدہ جماعتیں ہیں وہاں بھی صرف رجسٹرڈ جماعتوں کو ہی الیکشن کمیشن انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے پاکستان کے کمزور جمہوری نظام کو مزید کمزور بنانے میں ’’سیاسی بھگوڑوں ‘‘ کا بھی بڑا کردارہے کبھی کبھی انکی ’’بے اصولی سیاست ‘‘کی وجہ سے پورا نظام ہی منہدم ہو جاتا ہے یا عوام کی حمایت رکھنے والی جماعت کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد ہی سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہو گیا تھا اب سے پہلے مسلم لیگ کی کوکھ سے جناح مسلم لیگ نے جنم لیا راتوں رات مسلم لیگ کی جگہ ’’ریپبلکن پارٹی‘‘ وجود میںآنا اچنبھےکی بات نہیں تھی کل تک مسلم لیگ کے گیت گانے والے ’’ریپبلکن پارٹی‘‘ کا ڈھول بجاتے نظر آئے جنرل محمد ایوب خان نے مارشل لا ختم کر کے نام نہاد بنیادی جمہوریت کا نظام قائم کیا تو اپنی سیاسی ضرورتوں کے لئے’’کنونشن مسلم لیگ ‘‘ قائم کر دی تو بیشتر مسلم لیگی اس کاحصہ بن گئے جب کہ اس کے مقابلے میں کونسل مسلم لیگ قائم رہی جو حقیقی معنوں میں قائد اعظم کی جماعت مسلم لیگ کی وارث تھی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بھی اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کنونشن مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے کیا تھا معاہدہ تاشقند کے بعدانہوں نے جنرل محمد ایوب خان کے خلاف ’’سیاسی بغاوت‘‘ کر دی اور لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت دیکھ کر ’’موقع پرستوں‘‘ کی ایک بڑی تعداد پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئی جنرل ضیا ء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر شب خون مارکر ان کو تختہ دار پر لٹکایا تو ما سوائے دو ارکان کے پیپلز پارٹی کی پوری سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ذوالفقار علی بھٹوکو چھوڑ گئی جنرل ضیا ء ا لحق نے اپنی سیاسی ضروریات پوری کرنے کے لئے مسلم لیگ کے نام سے ایک سرکاری جماعت بنائی جس میں جہاں پرانے مسلم لیگی شامل کئے گئے وہاں ادھر ادھر سے بھی موقع پرست لوگوں کو مسلم لیگی بنایا گیا جب جنرل ضیا ء الحق نے محمد خان جونیجو کو وزارت عظمی سے برطرف کیا تو کوئی مسلم لیگی ان کے ساتھ کھڑا نہ ہوا پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد اس وقت کے صدر غلام اسحقٰ خان نے نواز شریف کو پارٹی کا صدر بننے سے روکنے میں براہ راست مداخلت کی جس کے نتیجےمیں مسلم لیگ(نواز) اور (جونیجو) کے دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کے عمل سے موقع پرست فائدہ اٹھاتے رہے کچھ ایسی ہی کیفیت پیپلز پارٹی کو درپیش رہی،

جب سے پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں سیاست میں اپنی جگہ بنانےکی کو شش شروع کی ملکی سیاست میں موقع پرستوں کی ایک بڑی تعداد نے پی ٹی آئی میں جگہ بنا لی پی ٹی آئی پر برا وقت آیا تو یہی وہ لوگ جنہیں ’’آر ٹی ایس‘‘ بند کر کے اسمبلیوں تک لایا گیا راتوں رات عمران خان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اس وقت 6،7 لوگ ہی رہ گئے ہیں جو ابھی تک نہیں ٹوٹے یا یہ کہہ لیجئے اسٹیبلشمنٹ نے انہیں مناسب وقت کے لئےآزاد چھوڑرکھا ہے باقی لوگوں نے پریس کانفرنسیں کر کے نہ صرف عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ سیاست سے ہی تائب ہو گئے ہیں ، جتنی توڑ پھوڑ 9مئی 2023ء کے سانحہ کے بعد ہوئی اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی انہوں نے ’’عدت‘‘ کے دن پورے نہ ہونے دئیے اور نئی پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں 9مئی2023ء کے سانحہ نے واقعی پی ٹی آئی کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے لیکن اس کا ووٹ بینک تا حال موجود ہے جسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کدھر جا ئے پریشان حال ووٹر کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دےرہا۔ پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ سے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا ہوا ہے جسے پی ٹی آئی سے بے وفائی کرنے والے پورا کرنے کیلئے نوزائیدہ جماعت ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ میں شامل ہو رہے ہیں یہی لوگ ملک میں مزید عدم استحکام کا باعث بنیں گے حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے درمیان پہلے ہی نشستوں پر’’ رسہ کشی‘‘ پائی جاتی ہے استحکام پاکستان پارٹی میں پناہ لینے والے ان ہی جماعتوں کے کوٹہ پر ہاتھ مارنے کی کوشش کریں گے اس طرح ایک بار پھر ملک میں ’’ہنگ پارلیمنٹ‘‘ قائم ہونے کا امکان ہے ملک میں جتھوں کی صورت میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا پڑے گی بصورت دیگرپورا جمہوری نظام ان موقع پرست لوگوں کے ہاتھوں یر غمال بنا رہے گا۔

تازہ ترین