• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیمی کیریئر پر کونسلنگ کی طرح آج کے اس دور پُرآشوب میں سیاست میں پہلے سے موجود کچھ سینئر لوگوں اور خاص طور پر سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے نئے خواہشمند نونہالان قوم کے لئے سیاسی کیریئر پر کونسلنگ بھی بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ کئی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ صحیح کونسلنگ اور رہنمائی نہ ہونے کے سبب سیاسی میدان کے کئی کھلاڑی تھوڑے ہی عرصے میں کسی کھڈے میں گر کر اچانک کسی مصبیت میں گرفتار ہو جاتے ہیں یا پھر عوامی حمایت کھو بیٹھتے ہیں۔ سیاسی کونسلنگ کی اسی اہمیت کے پیش نظر آج کے کالم میں اسی موضوع پر بھیجے گئے سوالات کے جوابات دیئے جارہے ہیں۔ سوالات بھیجنے والوں کا اتنا رش لگ گیا کہ ایک ہفتے میں سیکڑوں خطوط موصول ہوئے مگر ہم جگہ کی کمی کے باعث چند اہم خطوط کے جوابات عرض کر رہے ہیں۔
سوال:۔سر میرا تعلق ایک پرانے سیاسی خانوادے سے ہے ۔پچھلی دفعہ ممبر اسمبلی منتخب ہوا مگر جعلی ڈگری کی وجہ سے تھوڑے عرصے بعد نااہل قرار دے دیا گیا اور ساتھ ہی مجھ پر فوجداری کارروائی بھی شروع کی گئی مگر اللہ کے کرم سے اور اپنے ’’حضرت صاحب‘‘ کی دعا سے صرف چھٹے مہینے میں جیل سے باہر آگیا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے دوبارہ الیکشن لڑنا چاہئے؟ اور کیا عوام مجھے دوبارہ قبول کرکے میرے حق میں ووٹ دیں گے۔
جواب۔جناب آپ اپنے آپ کو بہتe under estimat کررہے ہیں ۔مستقبل کی سیاست میں آپ کا ستارہ کافی روشن نظر آرہا ہے۔ یہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہوگا کہ جیل جائے بغیر ہمارے ہاں کوئی بڑا لیڈر بن ہی نہیں سکتا۔آپ نے جیل کاٹ کر اپنی لیڈری پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ میرے خیال میں تو آپ نہ صرف اگلا الیکشن جیت سکتے ہیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ آپ پچھلے الیکشن سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کریں گے ۔ آپ چونکہ نئے نئے ہیں اس لئے جعلی ڈگری اور جیل کو سیریس لے رہے ہیں۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ ’’چھوٹی موٹی‘‘ چیزیں دل پہ بالکل نہ لیں اور صرف الیکشن کی تیاری کریں۔ کامیابی آپ کے قدم چومے گی،باقی عوام کے حافظہ کا تو آپ کو پتہ ہی ہے۔
سوال:۔ سر میرا تعلق ایک صنعتی گھرانے سے ہے۔ مجھے بچپن سے سیاست میں آنے کا بہت شوق ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ایک فیکٹری کے لئے دس کروڑ روپیہ قرضہ لیا تھا مگر بعض ’’ناگزیر‘‘ وجوہات کی بنا پر وہ قرضہ واپس نہ کر سکے اور ڈیفالٹر ہو گئے۔ سر کسی نہ کسی دن یہ قرضہ ضرور لوٹائیں گے مگر سرکار یہ بات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ میراسوال یہ ہے کہ اگر مجھ پر ڈیفالٹر کا الزام لگا کر میرے کاغذات نامزدگی رد کر دیئے جائیں تو اس صورت میں میرے لئے، الیکشن لڑنے کا کوئی راستہ نکل سکتاہے؟
جواب۔بادشاہو آپ تو ایسے ہی دل چھوٹا کر گئے ہیں۔ یہ کسی منجھے ہوئے سیاست دان کے لئے تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے،آپ چونکہ نئے ہیں اس لئے ذرا پریشان ہوگئے ہیں۔ آپ بالکل الیکشن لڑسکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے جب آپ کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض لگے تو سیدھا عدالت سے اسٹے آرڈر لے کر آجانا اور مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو اس اسٹے آرڈر کے بارے میں مناسب وصیت کر جانا کیونکہ آپ کے جیتے جی اُس کے فیصلے کا امکان بہت کم ہوگا۔
سوال۔سر میں تین دفعہ پہلے ممبر اسمبلی رہ چکا ہوں مگر پچھلے نگران سیٹ اپ میں سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے میرے اوپر کئی ناجائز مقدمے بنائے گئے۔ سر کیا اتنے مقدمات کی موجودگی میں عوام مجھے ووٹ ڈالیں گے اور اگر کامیاب ہوگیا تومقدمات کی وجہ سے نااہلی کا سامنا تونہیں کرنا پڑے گا؟
جواب:سرجی آپ الیکشن ضرور لڑیں آپ نہ صرف الیکشن بھاری اکثریت سے جیتیں گے بلکہ کم ازکم وزیر ضرور بنیں گے۔ ہو سکتا ہے اس سے بھی کوئی بڑا عہدہ مل جائے۔ (مگر چونکہ ہمیں مقدمات کی صحیح تعداد اور نوعیت کا اندازہ نہیں اس لئے اس بارے میں ہم کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے)۔
سوال:سر میرے والد صاحب پاکستان کے نامی گرامی سیاستدان رہے ہیں۔ والد صاحب نے’’ملکی مفاد‘‘ میں اپنے سیاسی کیریئر میں کئی پارٹیاں بدلیں بلکہ ایک آدھ دفعہ تو اپنی پارٹی بنانے کی کوشش بھی کی۔ والد صاحب اب سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اگلا الیکشن اب میں نے خود لڑنا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ’’ ملکی مفاد‘‘ میں مجھے کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہئے یا آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے؟
جواب:اس کا بہتر جواب تو آپ کے والد گرامی ہی دے سکتے ہیں مگر آپ نے سوال پوچھا ہے تو ہم اتنا کہہ سکتے ہیں چونکہ آپ ملکی مفاد کی بات کر رہے ہیں اس لئے ہمارے مشاہدے کے مطابق ملکی مفاد ہمیشہ الیکشن کے بعد ہی واضح اور صاف نظر آتا ہے الیکشن سے پہلے ہمیشہ مبہم اور دھندلا ہوتا ہے اس لئے آپ آزاد اُمیدوار کے طور اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائیں اور الیکشن کے بعد ملکی مفاد کی واضح صورتحال دیکھ کر فیصلہ کریں۔انشاء اللہ ملک کے مفاد میں کام کرنے کا خوب موقع ملے گا۔
سوال۔سر میرا تعلق ایک متوسط طبقے سے ہے میں نے حال میں ہی ایم اے میں گولڈ میڈل لیا ہے۔ میرا تعلیمی ریکارڈ ہمیشہ بہت اچھا رہا ہے۔ ہمیشہ ہر کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی ہے ۔مجھے بچپن سے بہت شوق تھاکہ میں سیاست میں آکر ملک و قوم کی خدمت کروں۔ الیکشن لڑنے کے لئے جتنے پیسے خرچ کرنے کی آخری حد مقرر کی گئی ہے تھوڑے تھوڑے کرکے میں نے وہ پیسے جمع کرلئے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ میرے بوڑھے والد مجھے منع کررہے ہیں کہ تم الیکشن مت لڑو ۔کہتے ہیں کہ جلدی سے کوئی چھوٹی موٹی نوکری ڈھونڈو کہ تمہاری شادی کرنی ہے مگر مجھے سیاست کا بہت شوق ہے آپ کے خیال میں مجھے کیاکرنا چاہئے؟
جواب:اس سے پہلے کہ کسی کو آپ کے اعلیٰ خیالات کا پتہ چل جائے اچھے بچوں کی طرح اپنے والد صاحب کا حکم مانیں۔کوئی نوکری ڈھونڈ کر فوراً شادی کریں اور ذہن پر زیادہ زور مت دیں۔
سوال۔سر میرا تعلق ایک روحانی گھرانے سے ہے ۔ پچھلی تین پشتوں سے ہمارے بزرگ اپنے علاقے میں لوگوں کے لئے مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں۔ میرے والد صاحب چاہتے ہیں کہ اتنی خدمت کے بعد اب ہمارے خاندان کو سیاست میں آنا چاہئے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آیا مجھے روحانیت میں آگے بڑھنا چاہئے یا پھر سیاست میں قدم رکھنا چاہئے۔ سیاست میں آنے کی صورت میں کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
جواب:پیر صاحب ماشاء اللہ آپ کا خاندان اپنے علاقے میں اپنی روحانی خدمات میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ ان کے کشف وکرامات کے قصے پورے علاقے میں زبان زد عام ہیں۔ ہمارے خیال میں تو آپ کو سیاست کے میدان میں کوئی مائی کا لال نہیں ہرا سکتا مگر ہمارا مشورہ ہے کہ آخری فیصلہ آپ کے خاندان کا کوئی بزرگ حالت استغراق کے بعد ہی دے سکتا ہے۔
تازہ ترین