• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لیے دو ارب بیاسی کروڑ77لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں ٹرانسپورٹ، تعلیم،صحت، انفرا اسٹرکچر، امن وامان اور پیداواری شعبوں کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے تاکہ صوبے میں بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ ملے اور صوبے کوتجارت اور صنعت کا علاقائی مرکز بنانے کی راہ ہموار ہو۔چھتیس ارب روپے خسارے کے اس بجٹ میں آمدنی کا تخمینہ دو سو باون ارب روپے ہے۔بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے 71 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ غیرترقیاتی اخراجات کے لیے دو سو اٹھارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔صوبے کو آمدنی کا بڑ ا حصہ قابل تقسیم پول سے حاصل ہوگاجس کی مالیت ایک سو بیاسی ارب روپے ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافے کے علاوہ کم سے کم اجرت تیرہ سے بڑھا کر چودہ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔بجٹ میں تعلیم کے لیے ایک بڑا حصہ مختص کیا گیا ہے ، لائق طلبہ میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کے لیے پچاس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے اپنی بجٹ تقریر میں حکومتی خرچ پر بیرون ملک علاج معالجے، سیمیناروں اور ورکشاپوں میں شرکت نیز لگژری گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔وزیر اعلیٰ کے بقول ان کی حکومت نے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے عوام کو ایک متوازن بجٹ دینے کی کوشش کی ہے جو اب تک پیش کیے جانے والے بجٹوں میں سب سے بہتر ہے۔ مالی نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے پبلک پروکیورمنٹ لیگل اتھارٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں بلوچستان حکومت کے ان اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے ۔ تاہم صوبے میں کرپشن کے خلاف مہم کے دوران وزیر اعلیٰ کے مشیر خزانہ اور سیکریٹری خزانہ دونوں کا بھاری مالی کرپشن میں ملوث پایا جانا نہایت قابل توجہ معاملہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام مالی معاملات کو مکمل طور پر شفاف رکھا جائے اور نگرانی کے نظام کو آخری حد تک مؤثر اور قابل اعتماد بنایا جائے ۔
تازہ ترین