• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو حصوں پر مشتمل مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے جو ملک کو درپیش موجودہ معاشی بحران کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ وہ مقبول آرا ہیں جس کی ہر سو سرگوشیاں جاری ہیں۔ اور جیسا کہ بالکل واضح ہے موجودہ بحران کے فوری حل کے لئے جو بھی کوشش کی جائے گی وہ ہمیں مزید ایک بحران اور پھر مزید ایک اوربحران کی طرف لے جائے گی۔

ہماری قومی قیادت کااولین کام یہ ہے کہ وہ ان حقائق کو پہچانیں جنہوں نے ملک کو بار بار پیش آنے والے ان حالات سے دو چار کیا اور خود کو ان مشکلات سے نکالنے کیلئے طویل راستہ اختیار کیا۔ ہمارے پاس بہت سے مواقع اور وسائل موجود ہیں لیکن کسی بھی قیادت کے لئے معاشی ڈھانچے کی ضروری تنظیم نو ایک مشکل اور سخت کام ہے۔

دائمی تجارتی اور مالیاتی خسارے سے دو چار یہ ملک قرضوں کے بہت زیادہ بوجھ، کھانے اور روزگار کے مواقع کی منتظر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، سمجھ میں نہ آنے والی مذہبی مداخلت، خود غرضی قلیل مدتی رویے اور بھوکے اور حق رائے دہی سے محروم لوگوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ہماری مختلف قیادتوں میں آج تک سچائی سے پردہ اٹھانے کے لئے درکار اعتماد، ہمت یا ایمانداری کے ساتھ ساتھ عبوری مشکلات سے نمٹنے کے لئے درکار صبر کی کمی بھی پائی جاتی ہے لیکن بہرحال بحالی کا کٹھن سفر شروع ہونا چاہیے ورنہ بصورت دیگر پاکستان ایک ناکام ریاست کی کھائی میں گرتا رہے گا۔

ان خامیوں میں سے پہلی یہ ہے کہ میں حال ہی میں استعمال ہونے والی اصطلاح کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ : اگر آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ ناکامی سے دو چار ہوا تو پیسہ نہیں آئے گا اور پاکستان برباد ہو جائے گا۔ یہ غلط ہے۔ جو رقم آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے آتی ہے ، تو اگر اور جب بھی آئی ایم ایف معاہدہ ہو جائے تو وہ آمدنی ہرگز نہیں ہے۔ یہ وہ قرضے ہیں جو قوموں کے مستقبل کو کھا جاتے ہیں۔ یہ منطقی طور پر واضح ہے کہ اگر ہماری برآمدی آمدن ہماری موجودہ درآمدات اور قرض کی سروسز کی موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے تو نئے قرضے صرف ملک کے مستقبل کو قرضوں کے گرداب میں پھنسانے اور ہماری کھپت کو مزید کم کرنے کا سبب بنیں گے۔ جب تک ہماری برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا ہمیں مزید قرضے لینے کے بجائے درآمدات کو روک کر اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے چاہئیں۔

ایک اور دیرینہ بیانیہ یہ رہا ہے کہ : متبادلات کی درآمدات ایک حل ہے کیونکہ یہ ہماری غیر ملکی کرنسی کی ضرورت کو کم کرتی ہے اور مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ یہ بھی غلط ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو پچھلے 70 سالوں سے ہماری صنعت کاری کی ساخت پر حاوی رہا ہے اور ہمیں کیا دیکھنے کو ملا؟ تیار شدہ اشیا کا ناقص معیار ایک طرف عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا اور دوسری طرف غیر ملکی کرنسی کے قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ یہ واضح رہے کہ یہ سوچ ہمارے لئے اچھی ثابت نہ ہوسکی۔ بہرحال ہم جو زیادہ تر اشیا تیار کرتے ہیں ان میں بھی درآمدی مواد موجود ہوتا ہے، چاہے وہ پلانٹ اور مشینری ہو یا خام مال یا رائلٹی کی ادائیگی وغیرہ کا معاملہ ہو۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے نتیجے میں درآمدی متبادل مصنوعات کی طلب کے سبب ان اجزا کی درآمدات نے درآمد نہ کرکے بچائے گئے زرمبادلہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تیسرا عقیدہ : حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے جیسا کہ تاجر برادری کا خیال ہے اپنی درآمدی متبادل ضروریات کے لئے غیر ملکی کرنسی کی کمی کے لئے۔

یہ بھی غلط ہے کاروباری مالکان روایتی طور پر اپنی اہلیت کی پیمائش مقامی صارفین کو اپنی مصنوعات کی کامیابی کےساتھ فروخت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے منافع کے لحاظ سے کرتے ہیں اس طرح ان کے پاس مقامی کرنسی کی استعداد ہوتی ہے جس سے وہ اپنے اخراجات کی ادائیگی کر سکتے ہیں پھر چاہے وہ مقامی ہو یا درآمدی، وہ اپنی درآمدی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے غیر ملکی آمدن پیدا کرنے کو اپنی ذمہ داری تصور نہیں کرتے وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ اسے مارکیٹ میں دستیاب ہونا چاہئے یا حکومت کو اس کی دستیابی یقینی بنانی چاہئے ۔لیکن حکومت برآمدکنندہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے غیر ملکی آمدنی حاصل ہوتی ہے متحمل مزاج والدین کی طرح یہ درآمدکنندہ کو غیر ملکی کرنسی کی فراہمی کے لئے بیرونی ذرائع سے قرض پر انحصار کرتی ہے اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت واشگاف الفاظ میں بتائے کہ وہ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اسے غیر ملکی کرنسی کی فراہمی کا آخری سہارا تصور کیا جائے کاروباری برادری کو اپنی درآمدی ضروریات کے لئے غیر ملکی کرنسی کمانے یا اس کا بندوبست کرنے کی اپنی ذمہ داری کوپہچاننا چاہئے۔

خاص طور پر یہ چوتھا عقیدہ رائج ہے ہمیں بلاامتیاز براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ معیشت کو اضافہ بخشے گی اور غیر ملکی کرنسی کے خسارے کو کم کرے گی خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت بھی فائدہ مند ہے۔ غلط۔ غیر ملکی سرمایہ کار بجا طور پر اپنی آمدن غیر ملکی کرنسی میں واپس بھیجنے کی توقع رکھتے ہیں اور ان کی متوقع وصولی کی شرح (20فیصد سالانہ) دراصل غیر ملکی قرض دہندگان کو قابل ادائیگی سود کی شرح (5فیصد سالانہ ) سے کہیں زیادہ ہے اگر بنیادی منصوبہ بڑی حد تک مقامی مارکیٹ میں قابل عمل ہوتا ہے تو اس کی آمدنی پاکستانی روپے میں ہو گی یہ منصوبہ جتنا زیادہ کامیاب ہو گا اتنا ہی زیادہ روپے میں منافع ہو گا اور منافع کی غیر ملکی کرنسی میں واپسی کا حجم بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا سرکاری اداروں کو غیر ملکی مالکان کے حوالے کرنے کا نتیجہ بھی یہی نکلے گا۔

(صاحبِ مضمون مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، افریقہ اور یورپ کی منڈیوں کے حوالے سے ایک سینئر بین الاقوامی بینکار ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین