فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران اعتزاز احسن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں، اگر میں اتفاق بھی کروں تو کہوں گا آپ بینچ میں بیٹھ جائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بڑے قانون دان اور سینئر ہیں، اعتزاز احسن آپ کہتے ہیں میں اس بار اپنا حلف توڑ دوں؟
اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ کا مؤقف درست ہے لیکن یہ ایک گھر کی مانند ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اعتزاز صاحب یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے، میں آئین اور قانون کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بینچ کی تشکیل کے بارے میں میرا مؤقف اس وقت سے ہے جب قانون بھی نہیں آیا تھا، میری سربراہی میں دو ایک سے اس بارے میں ایک فیصلہ دیا گیا، رجسٹرار نے سرکلر میں کہا کہ فیصلے کو نظر انداز کر دیا جائے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ سب مل کر بیٹھ کر فیصلے کرلیں، آپ کے گھر پر باہر سے حملہ ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اعتزاز صاحب ایسا نہ کریں، عدالت کے ڈیکورم کا خیال کریں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اٹارنی جنرل نے کہا ترامیم کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے تمام فاضل جج صاحبان کی عزت و احترام ہے، ہم نے جو کیا آئین کے مطابق کیا، چاہتے ہیں فیصلے حق اور انصاف کے مطابق ہوں، فیصلے مخلوق خدا کی خاطر ہوں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ درخواست گزاروں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر درخواست جمع کرائی ہے۔
ہم اس کا ابھی کچھ کرتے ہیں، تمام ججز اٹھ کر کمرۂ میں عدالت سے چلے گئے۔
واضح رہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا بینچ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد اٹھ کر چلا گیا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ بینچ سے اٹھ رہا ہوں، کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک اس عدالت کو نہیں مانتا۔
جسٹس سردارطارق مسعود نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کر دیتے ہیں اس کیس میں تو کل کو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔