(گزشتہ سے پیوستہ)
ڈھانچہ :پاکستان میں توانائی کے نہ ختم ہونے والے بحران اور مصنوعات کی تیار ی کی بلند لاگت نے صنعتی ترقی اور بالخصوص برآمدی شعبے کو بہت نقصان پہنچایا ۔ واحد خریدار، واحد فروخت کنندہ کا موجودہ ماڈل تواتر سے پیدا ہونے والے اس مسئلے کی جڑ ہے۔ جب تک کہ شفاف مسابقتی عمل کے ذریعے نجی شعبے کی فرموں کو بجلی اور قدرتی گیس کی تقسیم کے عام مرحلے پر نہیں لایا جاتا اور DISCOs کی اجارہ داریوں کو ختم نہیں کیا جاتا، صورت حال میں بہتری کی توقع عبث ہے۔ لیبر قوانین:پاکستان میں نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ ہے۔ قانون کی کتابوں میں70 سے زیادہ لیبر قوانین ہیں جو کہ اس کے اپنے حساب سے ’’پیچیدہ،مبہم ، غیر مساوی ہیں اور بعض اوقات موضوع کو سمجھنا مشکل بنا دیتے ہیں۔ انھیں استعمال کرنیوالے بھی الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ ‘‘بارہ سال گزرنے کے باوجود ان قوانین کو مستحکم اور آسان بنانے کا مشن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کی نذر ہوتا رہا ہے۔ قوانین اور ضوابط کی اتنی کثرت کے باوجود، کنٹریکٹ، عارضی اور یومیہ اجرت کے مروجہ طریقے مینوفیکچرنگ صنعتوں میں قبول کئےجاچکے ہیں۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں رسمی اور اجرت کی ملازمتیں جمود کا شکار ہیں۔ یہ قوانین فرموں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنا حجم بڑھانے کی بجائے چھوٹا رکھیں۔ نتیجتاً، مہارت کی سطح اور اوسطاً تعلیم کم ہے، ملازمت کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے، خواتین ایسی ملازمتوںکیلئے نہیں مل پاتیںجن کیلئے وہ مناسب ہیں۔ معاصر ممالک چین میں 85فیصد اور ویت نام میں 50فیصد کے مقابلے پاکستان میں صرف 7فیصد فرمیں اپنے کارکنوں کو باقاعدہ تربیت فراہم کرتی ہیں۔ جو فرمیں باقاعدہ تربیت فراہم کرتی ہیں ان کی پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افرادی قوت کی مہارت اور بہتر کارکردگی میں ایک روپیہ کی سرمایہ کاری سے اوسطاً 30سے 40فیصد اضافی منافع ہوتا ہےجو مالکان اور مزدوروں کے درمیان 75:25 کے تناسب سے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح محنت کی پیداواری صلاحیت زیادہ منافع کے حصول، کاروبار میں توسیع اور سرمایہ کاری کیلئے سرمائے کی افزائش، نئی ملازمتوں کی تخلیق، معقول اجرت اور عالمی مسابقت میں اضافے کا ایک قابل عمل راستہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ برآمدات میں اضافے، جی ڈی پی کی نمو، ٹیکنالوجی کو اپنانے، ملازمتیں پیدا کرنے اور ہنر مند افرادی قوت تیار کرنے کیلئےصنعتوںکی بحالی درکار ہے۔ صنعتی پالیسی کو ملک کی مجموعی ترقی کی حکمت عملی میں شامل کیا جانا چاہئے ۔ صنعت کاری میں پاکستان کا سفر گزشتہ چند دہائیوں سے پٹڑی سے اتر چکا ہے۔ اسے واپس پٹڑی پر چڑھایا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئےصنعتی پالیسی 1.0 کام نہیں دے گی۔ یہ پالیسی اپنی ساکھ کھو چکی ۔ نئی پالیسی کے ذریعے جس میں ’’تکنیکی قابلیت، مہارت، کام کا نظم و ضبط، تربیت کی اہلیت، مسابقتی سپلائر کلسٹرز، مضبوط معاون ادارے، اچھا انفراسٹرکچر اور اچھی انتظامی صلاحیتوں کو ترقی دینا اور پروان چڑھانا ‘‘ضروری ہے۔ مخصوص فرموں اور صنعت یا شعبے کو سبسڈی اور تحفظ دینے سے گریز کرنا ہو گا، جیسا کہ سابق دور کی صنعتی پالیسی میں انھیں ’’نوخیز صنعتیں‘‘ قرار دے کر مراعات سے نوازا جاتا رہا ہے ۔ ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے کوئی معیار مقرر نہیں کیا گیا تھا اور نہ دیکھا گیا کہ آیا مطلوبہ ہدف حاصل ہوا ہے یا نہیں۔ پالیسی میں یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ فوائد لینے والی صنعت کتنا وقت گزار چکی ہے۔ کچھ صنعتیں توکئی دہائیوں کے بعد بھی فوائد سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ انتظامی ان پٹ اور آؤٹ پٹ قیمتوں، فرم، ذیلی شعبے، صنعت کی مخصوص تفریق مراعات کے ذریعے درجہ بندی کی گئی تھی۔ اس لئے ہیرا پھیری، ملی بھگت، قیاس آرائی، گیمنگ زیادہ منافع کی طلب کو پورا کرتے رہے لیکن صنعت کاری مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی۔ سرمایہ کار پیداواری سرگرمیوں سے گریز کرتے ہوئے غیر پیداواری سرگرمیوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جہاں مارکیٹ کے بگاڑ اور خامیوں کی وجہ سے فوری، قلیل مدتی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ نجی منافع معاشرے کے فوائد میں نقب لگا کر کمایا جاتا ہے۔ مجموعی طور پرکم اقتصادی ترقی کرنے اور چند ایک کھلاڑیوں کے بھاری منافع کمانے میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
حکومتیں بھی ان شعبوں کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہیں جنھیں فروغ دینا چاہئے۔ یہ کاروبار کرنیوالے ہیں جو بازاروں پر گہری نظر رکھتے ہیں، سرمایہ کاری میں نسبتاً منافع اور متحرک تقابلی فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ سرمایہ کاری کیلئے سرمائےکا بہاؤ ایک بڑھتا ہوا ذریعہ ہے۔ مرکزی بینک کے ذخائر اور امداد کی دوسری شکلوں کے حالیہ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشکل میکرو اکنامک صورتحال کے باوجود پاکستان میں کارپوریٹس کی واپسی اب بھی کافی پرکشش ہے۔ اگر پاکستان نے 1999کی طرح اپنی برآمدات سے جی ڈی پی کے تناسب کو 16فیصد کی سطح پر برقرار رکھا ہوتا تو 2022میں تجارتی سامان کی کل برآمدات 56ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہوتیں یعنی 32 بلین ڈالر سے 75 فیصد زیادہ ہوتیں ۔ درآمدات کی اس سے بھی بلند سطح کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابل انتظام ہوتا۔ اشیا ئےصرف پر درآمدی ڈیوٹی کو دیگر مسابقتی ممالک کے برابر لانا ہوگا کیونکہ وہ برآمدات پر ٹیکس کے طور پر کام کرتے ہیں اور مقامی منڈیوں میں فروخت کرکے منافع میں اضافہ کرتے ہیں۔پاکستانی پبلک لسٹڈ ایکسپورٹنگ فرمیں گھریلو اورینٹڈ فرموں (ورلڈ بینک) کے مقابلے میں اوسطاً 20فیصد زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔ پاکستان بزنس کونسل کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق وہ مینوفیکچرنگ سیکٹر جن کی وہ ممکنہ ویلیو ایڈیشن اور ایکسپورٹ ڈائیورسی فکیشن کیلئے تجویز کرتے ہیں وہ آٹوموبائل، الیکٹرانکس، انجینئرنگ اور فوڈ پروسیسنگ ہیں۔
سیاسی استحکام قائم کرنے، مضبوط معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے، عوام کے استعمال کی اشیا اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے علاوہ حکومت کو اپنے دعوؤں میں کمی لانا ہوگی۔ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافےکیلئے نجی شعبے کی جانب سے بینک کریڈٹ اور کیپٹل مارکیٹ تک رسائی کی راہ ہموار کرناہوگی۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اخراجات کو معقول بنانے سے نہ صرف بجٹ خسارے میں کمی آئے گی بلکہ سرمایہ کاری فراہم کرتے ہوئے ٹیکس کی شرح کم کرکے نجی شعبے کو بھی مدد ملے گی۔ پرانی عادتیں مشکل سے ہی جاتی ہیں۔ لیکن جب تک ہمارے ذہن میں تبدیلی، سیاسی عزم اور مطلوبہ تبدیلیوں کو سنجیدگی سے نافذ نہ کیاگیا تو ہم ہر چند سال بعد ایک سے دوسرے بحران کا سامنا کرتے ، آئی ایم ایف اور اپنے دوستوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہیں گے۔ صنعتی پالیسی 2.0کابھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو اس سے پہلے والی پالیسیوں کا ہوا ۔