• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللّٰہ کا ایک ازلی اور ابدی قانون ہے اور وہ یہ کہ اس دنیا سے رخصت ہونے سے قبل انسان کاظاہر اور باطن دنیا پر پوری طرح آشکار ہو جاتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سب انسان گناہگار ہیں، سوائے ان مقدس ہستیوں کے جنہیں اللّٰہ نے اپنے پیغمبر بنا کر انسانوں میں مبعوث فرمایا۔ علم اور شجاعت سمیت پیغمبرؑ بھی مختلف خوبیوں میں ایک دوسرے سے مختلف تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ نے ا ن میں بھی درجات بنائے۔

وہ تو خیر اللّٰہ کی طرف سے مکمل طور پر ہدایت یافتہ تھے ۔ عام انسانوں کیلئے قانون یہ ہے کہ گو اللّٰہ مخلوق کے پردے رکھنے والا ہے اور پردہ رکھنے کو پسند کرتا ہے ۔خصوصاً ان لوگوں میں جو نیکی کے کاموں میں اپنا مال صرف کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں گمان کیا جا سکتاہے کہ اللّٰہ اپنی رحمت سے انہیں ڈھانپے رکھے گا۔ کسی شخص کی ذات میں مگر بہت بڑے تضادات کارفرما ہوں تو دنیا چھوڑنے سے قبل وہ آشکار ہو کر رہتے ہیں ۔اس کا حل یہ ہے کہ انسان اپنی خامیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا رہے ۔یوں یہ تضادات ختم ہو تے چلے جائیں ۔جو جتنی بڑی مسند پر بیٹھا ہے ، اسے اتنا ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

آج ہم اپنے لیڈروں کا اصل کردار بخوبی جان چکے ۔ فرض کریں کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت بننے کے فوراً بعد آصف علی زرداری پردہ فرما جاتے تو وہ ایک عظیم جمہوری ہیرو کے طور پر یاد رکھے جاتے۔ 2008ء سے 2013ء کی زرداری حکومت ملکی تاریخ کی بدترین حکومت تھی ۔اس دوران شرح ِ ترقی دو فیصد رہی۔حج کرپشن کیس، ایفی ڈرین اسمگلنگ کیس اورکرائے کے بجلی گھروں کے ہوش ربا اسکینڈل سامنے آئے۔ قرض میں آٹھ ہزار ارب کا اضافہ ہوا ۔ کراچی میں تخریب کاروں کو روکنے کی بجائے زرداری صاحب نے پیپلزامن کمیٹی کے نام سے اپنا مسلح گروہ بنا یا۔ پانچ سال میں ہزاروں لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ۔ تھر کے پیاسے ایک ایک بونداور ایک ایک نوالے کو ترستے ہوئے دنیا سے اٹھے ۔کرپشن کو ایک سائنس بنا دیا گیا ۔ ہر بڑی اور چھوٹی نوکری بیچی گئی ۔ ہاں البتہ زرداری صاحب کی ایک اچھائی بھی آشکار ہوئی ۔ ان میں برداشت تھی۔ اپنی حکومت کی برائیاں آشکار کرنے والوں پر وہ اس طرح قہر بن کر نہیں ٹوٹے ، جیسے شریف ٹوٹتے ہیں ۔

پی ڈی ایم بننے سے قبل شہباز شریف اگر دنیا سے رخصت ہو جاتے تو کیا ہوتا؟ دنیا یہی سمجھتی کہ شہباز شریف کو اگر موقع ملتا تو وہ زرداری صاحب کو لاڑکانہ ، لاہور اور راولپنڈی کی گلیوں میں گھسیٹیں گے ۔ ان کا پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت بالخصوص سوئس بینکوں میں موجود 60ملین ڈالر واپس لا کر قوم کے قدموں میں نچھاور کریں گے ۔2013ء میں کہنا تو ان کا یہ تھا کہ اگر عمران خان کو ووٹ دیا تو زرداری صاحب دوبارہ آجائیں گے ۔ آج انہی کے ساتھ وہ خود اتحاد میں بیٹھے ہیں ۔2013ء میں اگر نون لیگ کی حکومت نہ بنتی تو عوام کو کیسے معلوم ہوتا کہ چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا شہباز شریف کا دعویٰ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ، جو عوام کو لبھانے کیلئے کیا گیا۔

مرنے سے قبل انسان آشکار ہو جاتا ہے ۔ آج یہ پوری طرح آشکار ہے کہ نواز شریف ایک بزدل شخص ہیں۔ اپنے حریف کو ڈیڑھ سو مقدموں سے باندھنے اور اپنے بھائی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی سوچ رہے ہیں کہ ملک واپسی پر کہیں گرفتارِ بلا نہ ہو جائوں۔ دشمن کہیں الیکشن جیت کر دوبارہ طاقت میں نہ آجائے۔لندن فلیٹس اور سرے محل سمیت بیرونِ ملک موجود دولت کے انبار شریف اور زردار لیڈروں کی ہوس کے مظہر بن کر نشر ہوئے ۔

جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے، ان کے اندر سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ احسان فراموشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ۔ان کے باب میں خاموشی اس لیے بہتر ہے کہ ساری دنیا اس وقت ان کے خلاف ایکا کیے ہوئے ہے ۔ان پر تنقید کیلئے یہ کوئی مناسب وقت نہیں ۔ ہاں، البتہ اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ دلیر آدمی ہیں ۔ان خوفناک حالات میں، جب کہ انہیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے اور پورے ملک کی عدالتوں میں انہیں گھسیٹا بھی جا رہا ہے، فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔یہ بھی پوری طرح آشکار ہو چکا ہے کہ وہ لالچی لوگوں میں گھرے ہوئے ضرور ہیں، خود دولت کے حریص نہیں ۔

آنگ سان سو چی اگر 1991ء میں امن کا نوبل انعام جیتنے اور جیل کی سختیاں جھیلتے ہوئے دنیا سے اٹھ جاتیں تو ایک تاریخی عظیم شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جاتیں ۔ اقتدار اگر نصیب نہ ہوتا اور روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام پر بے حسی اگر نہ ظاہر ہوتی تو اصلیت کیسے کھلتی ۔اصلیت کھل کے رہتی ہے ۔

عامر لیاقت مرحوم اور جاوید ہاشمی کی زندگیاں آپ کے سامنے ہیں ۔ جاوید ہاشمی ’’باغی ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے ۔دراصل میرے والد نے ہی ان کی کتاب کایہ عنوان رکھا تھا ۔ 2014ء کے دھرنے کے دوران انہوں نے یہ محسوس کیا کہ عمرا ن خان ناکام ہو گیا ہے ۔ اگر وہ خاموشی سے چھوڑ جاتے تو باغی ہی کے نام سے یاد رکھے جاتے ۔الطاف حسین کی مثال آپ کے سامنے ہے، جو کبھی طاقت کی علامت تھے۔

کیمرہ ، موبائل فون اور انٹرنیٹ ایجاد ہونے کے بعد خصوصاًانسان کی اصلیت آشکار اور نشر ہونے کا عمل بہت تیز ہو گیا ہے ۔چیزیں مسلسل ریکارڈ اور نشر ہو رہی ہیں ۔ پنامہ لیکس اور وکی لیکس آپ کے سامنے ہیں ۔ روس میں بیٹھا ہوا شخص دنیا کی سب سے بڑی عالمی طاقت کاکچا چٹھا نشر کر رہا ہوتا ہے۔

دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ اللّٰہ تمام لوگوں کے پردے قائم رکھے۔

تازہ ترین