فکر قرآں فگار کیا کہئے
ایک مہلک غبار کیا کہئے
مملکت کا ہو نام پاکستان
راہ سب خاردار کیا کہئے
اب ریاست پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات وہ کروٹ لے چکے ہیں کہ باوجود غمگین دل اور کانپتے ہاتھوں کے ایک عرصے بعد دوبارہ قلم اٹھا لیا ہے۔ دعا کیجئے، قلم چلتا رہے، اب کے ان کا نام ’’مہلک غبار‘‘ ہے، نام مجھے بھی پسند نہیں کیونکہ میں قلم کی دنیا میں شاعری اور لطیف نگاری کے حوالے سے جانا جاتا ہوں لیکن اب حالات لطیف نہیں، سو لکھائی اگر سچ ہوگی تو تلخ ہوگی میرا ایک شعر سنئے؎
لڑ کر ہی شب و روز سے بدلے ہیں شب و روز
فریاد سے حالات کبھی سر نہ ہوئے تھے
میری عمر اس وقت نوے سال سے اوپر ہے، اس دوران میں نے قریباً چالیس سال پاکستانی فوج، پاکستانی پولیس، سول سیکرٹریٹ آف پاکستان میں بطور جائنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری ملازمت کی ہے، پھر ایک مارشل لاء کے دوران ایک مرحوم جرنیل نے مارشل لاء لگا دیا، ان کے دو عہدے تھے، ایک صدر پاکستان اور ایک چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (CMLA) ۔ میںاس وقت وزارت داخلہ پاکستان کا سیکرٹری تھا، اس سے پہلے میں سندھ، پنجاب، بلوچستان اور صوبہ سرحد کے ڈی آئی جی اور آئی جی پولیس کے عہدوں پر ملازمت کرکے مرکز میں سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوا تھا، اللہ کا کرم ہے کہ اتنے بڑے عہدوں پر رہ کر کبھی رشوت کے گناہ میںملوث نہیں ہوا، ابھی بطور مرکزی سیکرٹری کے میری پانچ سال کی نوکری باقی تھی، ایک دن جبکہ میں وزارت داخلہ کا سیکرٹری تھا مذکورہ بالا صدر اور مارشل لاء چیف نے مجھے بلایا۔
میں حاضر ہوا انہوں نے چند لمحے عام گفتگو انتظامیہ کے متعلق کی، پھر اچانک مجھے حکم دیا کہ ایک سابق وزیراعلیٰ پاکستان کے خلاف ایک ایسا بیان دوں کہ ان کے خلاف ایک اور پرچہ یعنی FIR درج ہو جائے، ظاہر ہے ایسے حکم کی نوعیت سیاسی تھی، میں انتظامیہ کا ایک پرانا رکن تھا، میرے فرائض میں ایسی سیاست بازی جائز نہ تھی میں نے معذرت کرلی، تیسرے دن مجھے ملازمت سے بغیر پنشن کے فارغ کردیا گیا، مارشل لاء میں ایسے احکام ممکن ہوتے ہیں اور ان کے خلاف اپیل ناممکن، میرا خاندان دیہاتی اور دہقان پیشہ ہے، میں اپنے خاندان کی تاریخ میں پہلا شخص ہوں جس نے بی اے تک پڑھا لیکن اللہ کا یہ کرم رہا کہ میں نے بی اے کے آخری امتحان تک تعلیم کے ساتھ کاشتکاری کے تمام کام اور مویشی پالنے اور سنبھالنے کی تمام تدبیریں سیکھ رکھی تھیں۔
مناسب زرعی رقبہ میرے پاس موجود تھا۔ چنانچہ ملازمت کی غلام زندگی سے فارغ ہوتے ہی کاشتکاری کے میدان میں واپس چلا گیا، پھر کھلی فضا، کاشت جیسے فطری کام اور چار سو دن رات فلک اور شمس و قمر کے جاں پرور مناظر نے طبیعت شعر کی طرف پھیری۔ فطرت کی اس ہمسائیگی کے دوران چند شعر پاکستانی سرکاروں کے اور جبرو ناانصافی کی تعریف میں کہے، آپ بھی سنئے
جفا کا بول بالا دیکھتے ہیں
انہیں محفل میں تنہا دیکھتے ہیں
قیامت منہ چھپائے سو رہی ہے
زمیں پر حشر برپا دیکھتے ہیں
جو درباروں پہ اتراتے ہیں ان کو
وہی دربار رسوا دیکھتے ہیں
اور
کہتے ہیں نجومی جنہیں قسمت کے ستارے
دیکھا تو مری روح کے سب نقش قدم تھے
تو نے تو فقط عالم ظاہر میں جیا ہے
مجھ کو غم ہستی کے سوا اور بھی غم تھے
خیر شاعری تو آئین اور قانون سے آزاد ایک خیالی فن ہے، آپ پاکستان میں ہر جگہ سرکار کے کاروبار میں ایک ناکام کوشش اور ایک مہلک فن کی جھلک پائیں گے، عجب صورت حال ہے، اس کی مثال شاید کسی اور مملکت میں نظر نہ آئے، آپ ہمارے آئین پاکستان کی ’’شق 2/31 الف پڑھ لیجئے۔ ترجمہ
الف۔ ’’ریاست پوری کوشش کرے گی کہ مسلم طلباء کے لئے قرآن اور اسلامیات لازمی مضامین تعلیم ہوں۔
ب۔ عربی زبان سیکھنے کی تمام سہولیات موجود ہوں اور قرآن اور اسلامیات کی تمام تعلیمی سہولیات میسر ہوں‘‘
آئین پاکستان (اشاعت 1992) شق2/31 الف
آخر میں میرے دو شعر اور سن لیجئے تاکہ اس مضمون کی اور اس کے عنوان ’’مہلک غبار‘‘ کی تلخی بانٹی جائے۔ عرض کیا ہے؎
ہم تو اک جشن چراغاں لے کے نکلے تھے مگر
شہر تاریکی کے مدفن تھے کسے معلوم تھا
ہر دوا ناسور کے منہ پر نمک بن کر لگی
چارہ گر درپردہ دشمن تھے کسے معلوم تھا
جن محلوں کی جبیںپر نقش تھے شاہیں کے پر
صرف زاغوںکے نشیمن تھے کسے معلوم تھا