مولانا نعمان نعیم
ارشادِ ربانی ہے: ترجمہ: اور انہیں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ بھی ٹھیک ٹھیک سنا دیجئے جب ان دونوں نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ (سورۃ المائدہ :۱۸۳ )علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباسؓ سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔( تفسیر ابن کثیر ۲/۵۱۸)
اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی، البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعے سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پر اُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
عید الا ضحی کی قربانی اصل میں اس واقعے عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا یعنی خواب میں فرزند عزیز حضرت اسماعیل ؑکو ذبح کرتے دیکھا تو سچ مچ انہیں قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ہماری مختلف مذہبی کتاب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا آیاہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھاتھا۔پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے عشرعی اصطلاح میں’’یوم الترویہ‘‘کہا جاتا ہے۔ لغت میں ترویہ کے معنی’’سیراب کرنا‘‘پانی فراہم کرنا‘معنی اور عرفات میں چونکہ پانی نہیں ہے، اس لئے ایام حج میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ’’ترویہ کے معنی و مفہوم میں’’پانی پلانا‘‘ لکھے ہیں ،لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے تھے ۔بعض اہل زبان نے ’’ترویہ‘‘کو روایت سے لیا ہے، اس لئے ’’دیکھنے کے ‘‘معنی میں لیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی چونکہ خواب دیکھا تھا تو دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔ اس کی تو جیہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز ظہر کے بعد احرام باندھ کر منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادِراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں ۔ایک اور جگہ اس کے معنی ’’سوچ کا دن‘‘ لکھتے ہیں، کیوں کہ رات کے خواب کے بعد دن میں اس کی تعبیر کے بارے میں سوچا تھا،اس لئے اس دن کا نام’’یوم الترویہ‘‘پڑگیا۔ اس دن کا تعلق چونکہ ایام حج سے بھی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح اٹھ کر آپ ؑ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہوجائے۔ آپ نے اونٹ قربان کردیا۔ دوسری رات پھر وہی خواب آیا۔ چنانچہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا۔واضح ہو کہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہاہے جسے صرف چند مخصوص افراد استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ عام آدمی کی قیمت خرید سے باہر ہوتا ہے۔ دوسرے دن آپؑ نے جو قربانی پیش کی وہ’’یوم عرفہ‘‘ تھا جس کے معنی’’پہچاننے‘‘ کے ہیں۔
علمائے کرام لکھتے ہیں کہ جنت سے نکلنے کے بعد خطہ زمین پر حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حواؑ ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے اور پھر عرفات کے میدان میں ان کا ملاپ ہوا تھا جہاں دونوں نے ایک دوسرے کویوم عرفہ میں پہچان لیا تھا۔ اس لئے اسے ’’عرفہ کا دن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری تو جیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس دن حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم ؑ کو مناسک حج سکھائے تھے، ان مناسک کو دیکھنے کے لئے آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی اور ہمیں اپنی عبادتیں (مناسک) سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔‘‘(سورۃ البقرہ آیت :128)
عرفہ ذی الحج کا دن ہوتا ہے، اسی دن تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کا رکن اعظم ہے ‘یہاں کی حاضری خواہ چند ساعتوں کے لئے ہی سہی‘ ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔ اس دن عازمین حج اپنے آپ کو رب کائنات کے حضور پیش کر کے اپنے گناہوں کا اعتراف بر ملا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے چونکہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا، اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔ اسی دن فجر کی نماز سے تیرہویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین وحضرات پر چاہیے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔
تیسری رات کو آپؑ کو پھر وہی خواب دیکھائی دیا اور یاد دہانی کروائی گئی کہ اے ابراہیمؑ اپنی عزیز ترین شے کو قربان کرو۔آپؑ نے اس موقع پر اپنے گردو پیش کاجائزہ لیا تو آپؑ کو حضرت اسماعیلؑ نظر آئے تو آپؑ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیاجس کے بارے میں قرآن حکیم میں بھی ذکر ہوا ہے۔پھر جب وہ بچہ اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس نے کہا۔میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے قربان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟بیٹے نے جواب دیا ‘والد محترم:جو حکم ہوا ہے اسے بجالائیے ،انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اوراس نے اسے (باپ نے بیٹے )کروٹ کے بل گرادیا۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیمؑ’’یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دیکھایا۔ بے شک، ہم نیکی کرنے والے کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا‘‘۔(سورۃ الصافات)
مفسرین کرام ان آیات کی تشریح بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت اسمعیلؑ کی عمر 13برس تھی۔ پیغمبر وں کے خواب بھی وحی الہٰی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے بیٹے کے قربانی کے حکم کو وحی الہٰی جانتے ہوئے تسلیم کرلیا اور بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امر الہٰی کے لئے کس حد تک تیار ہے؟اسی بیٹے کو اللہ تعالیٰ مستقبل میں پیغمبروں کے لئے چن چکا تھا، اسی لئے وہ حکم الہٰی کے کیسے خلاف جاسکتے تھے ؟پھر اس سے اگلی آیت میں ارشاد فرمایا: ’’اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیے میں دے دیا اور ہم نے اس کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ‘ابرہیمؑ پر سلام ہو ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے۔(القرآن) یہ بڑا ذبیحہ ایک دنبہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے بھیجا‘پھر حضرت اسمعیلؑ کی جگہ اسے ذبح کیاگیا اور پھر اسی سنتِ ابراہیمی کو قیامت تک قرب الہٰی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عید الاضحی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا۔ قربانی کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ،لیکن امت مسلمہ ہر سال جو قربانی کرتی ہے‘یہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی یادگار ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اکر م ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال پابندی سے قربانی فرماتے تھے۔(مشکوٰۃ)حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا: بقرعید کے دن قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں ہے اور بلاشبہ قربانی کرنے ولا قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، بالوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (یعنی یہ حقیر اشیاء بھی اپنے وزن اور تعداد کے اعتبار سے ثواب میں اضافے کا سبب بنیں گی اور (یہ بھی) فرمایا کہ بلاشبہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ،لہٰذا خوب خوش دلی سے قربانی کرو۔ (مشکوٰۃ)
حضرت زیدبن ارقمؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسولﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہؓ نے عرض کیا، ہمارے لیے اس میں کیا ثواب اور اجر ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا، اگر اون والا جانور ہو (یعنی دنبہ ہو جس کے بال بہت ہوتے ہیں) اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کے بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ (مشکوٰۃ)
مذکورہ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا عیدالاضحی کے دن قربانی کرنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے، پس جو عمل محبوب حقیقی کو محبوب ہو، اسے کس قدر محبت اور اہتمام سے کرنا چاہیے، اس دن قربانی کرنا ہمیں اللہ سے کتنا قریب لے جائے گا اور ہم پر سے کتنی مصیبتیں ٹل جائیں گی، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، اگر ان تین دنوں میں کوئی شخص واجب قربانی نہ کرے اور اس کے بجائے سونا چاندی خرچ کرے اللہ کے راستے میں یا درہم و دینار خرچ کرے یا اور خیر خیرات کے کام کرے، رفاہی اداروں میں رقم دے، یہ اللہ کو پسند نہیں، سوائے اس کے کہ قربانی کےجانور کے گلے پر چھری پھیرے ،قربانی کے دنوں میں اللہ کو اولاد آدم کا یہ عمل بے حدمحبوب ہے۔