سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ ایک سنجیدہ قومی معاملہ ہے جو خصوصی عدالت میں زیرسماعت ہے۔ ابھی یہ مقدمہ ابتدائی مراحل میں ہے اور فردجرم بھی عائد نہیں ہوئی لیکن مختلف سیاسی اور قانونی حلقوں نے اسے افسانوی رنگ دینا شروع کر دیا ہے جس سے قوم کے ذہنوں میں غیرضروری ابہام اور الجھائو پیدا ہورہا ہے۔ ایک حلقہ یقین کی حد تک پیش گوئی کررہا ہے کہ سابق فوجی آمر کو بعض دوست ممالک کی مداخلت یا داخلی مصلحتوں کی وجہ سے کسی ڈیل کے تحت ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ماضی کے ایسے واقعات کی مثالیں بھی پیش کی جا رہی ہیں جب بعض شخصیات کو اسی طرح کے حالات میں بیرون ملک روانہ کر دیاگیا۔ اس حوالے سے دوسرے مفروضوں کے علاوہ عدالت میں پیشی کے لئے آتے وقت اچانک دل کی تکلیف اور چیک اپ کے لئے امراض قلب کے فوجی ہسپتال میں ان کے داخلے کو بھی دلیل کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے۔ اس حلقے کا خیال ہے کہ یہ واقعہ بیرون ملک علاج کے لئے انہیں بھیجنے کا جواز بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی حکومت پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ سابق صدر کو کسی صورت ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے اور ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور ایمرجنسی نافذ کرکے آئین توڑنے پر عدالت سے انہیں کڑی سزا دلائی جائے۔ ایک اور طبقہ اس بحث مباحثے کو، جس میں اپوزیشن کے علاوہ حکومتی زعما بھی برابر کا حصہ لے رہے ہیں، حکومت کی طرف سے روزافزوں مہنگائی، بجلی و گیس کی بے محابا لوڈشیڈنگ، دہشت گردی کے خون آشام واقعات اور بڑھتی ہوئی بے چینی سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دے رہا ہے۔ یہ تمام ’سازشی تھیوریاں‘ ہیں جن کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن اس سے اندرون اور بیرون ملک پاکستان کی ساکھ پر کوئی اچھے اثرات مرتب نہیں ہورہے۔ یہ صورت حال اس لئے پیش آئی کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل6کے تحت غداری کا مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس پر باقاعدہ کارروائی ہورہی ہے۔ ماضی میں کچھ دوسرے طالع آزما جرنیلوں نے بھی غیرآئینی طریقوں سے منتخب حکومتوں کے تختے الٹے مگر وہ کسی نہ کسی وجہ سے مقدمات اور احتساب سے بچ نکلے۔ پرویز مشرف کے خلاف موجودہ حکومت نے تکنیکی تقاضے پورے کرکے عدالت میں باقاعدہ چالان پیش کردیا ہے اور گیند اب عدلیہ کی کورٹ میں ہے۔ اس کا مقصد کسی ادارے کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ مستقبل میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرناہے تاکہ ملک میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے اور اس کے ثمرات کسی رکاوٹ کے بغیر عام آدمی تک پہنچانے کا موقع ملے جہاں تک سابق صدر کی بیماری کا تعلق ہے تو اس کے متعلق میڈیکل رپورٹس پیر کو عدالت میں پیش کر دی جائیں گی، پھر یہ فیصلہ عدالت کرے گی کہ ان کا علاج ملک کے اندر کیا جائے یا انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ کسی غیرملکی دبائو کے تحت انہیں باہر بھیجنے کے متعلق قیاس آرائیوں کی وفاقی کابینہ کے اہم ارکان پہلے ہی تردید کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق صدر جنرل (ریٹائر) پرویز مشرف کو علاج کے لئے بیرون ملک بھجوانے کا ابھی تو سوچا بھی نہیں جاسکتا، وہ عدالتی کنٹرول میں ہیں اور عدالت ہی ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ وزرا کے بیانات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سابق صدر کے حوالے سے حکومت پر کوئی دبائو نہ تھا اور نہ ہی ہے۔ حکومت نے اس بارے میں کچھ نہیں سوچا، انہیں بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ صرف عدالت کرے گی۔ ان وضاحتوں کے بعد پرویز مشرف کے مستقبل کے حوالے سے ابہامات ختم ہوجانے چاہئیں۔ ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ معاملے کو آئین و قانون کے مطابق چلایا جائے۔ پرویز مشرف کے بارے میں فیصلہ کرنے کا بہترین فورم عدلیہ ہے، اسے عدلیہ پر ہی چھوڑ دینا چاہئے،وہ جو بھی فیصلہ کرے، حکومت فوج سیاسی پارٹیوں اور عوام سب کو اسے تسلیم کرلینا چاہئے۔ اسے سازشی یا افسانوی رنگ دینا اور قوم کے ذہنوں کو الجھانا مناسب نہیں۔ قانون جو بھی راستہ اختیار کرے گا اور عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی ملک و قوم کے مستقبل کے لئے وہی بہتر ہوگا۔
نیوکلیئر توانائی:اہم پیش رفت
توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی چھ ماہ میں قابل قدر کوششیں کی ہیں اور یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ان کے نتائج بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ چشمہ پاور کے پہلے دو پلانٹس کی تکمیل کے بعد گزشتہ روز پلانٹ تین اور چار بھی مکمل ہوگئے۔ پہلے دو پلانٹس سے چھ سو پچاس میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں جولائی کے مہینے سے شامل ہوگئی ہے جبکہ ان نئے پلانٹس میں ری ایکٹرز کی تنصیب کے بعد 2016ء سے مزید چھ سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔ منصوبہ بندی اور ترقی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق گیارہ سو میگاواٹ کے چشمہ ری ایکٹر فائیو پر بھی جلد کام شروع کردیا جائے گا۔ کراچی میں گیارہ سو میگاواٹ کے دو جوہری پاور پلانٹ تعمیر کرنے کا کام بھی جاری ہے۔جبکہ مظفر گڑھ اور احمد پور شرقیہ میں نئے ایٹمی پاور پلانٹس کے لئے جگہ کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔ مظفر گڑھ کے پاور پلانٹ سے چھ ہزار میگاواٹ بجلی ملک کو حاصل ہوگی۔ وزیر منصوبہ بندی کے مطابق 2050ء تک ملک میں جوہری توانائی سے بجلی کی پیداوار چالیس ہزار میگاواٹ تک جاپہنچے گی۔ جوہری توانائی کے یہ منصوبے چین کے قیمتی اور مخلصانہ تعاون کا نتیجہ اور پاک چین دوستی کو لازوال بنانے کا ذریعہ ہیں۔جوہری توانائی کے علاوہ گڈانی انرجی پارک، بھاشا اورداسو ہائیڈل پاور منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ان منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد قومی پیداوار میں اضافے کی شرح سات آٹھ فی صد تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔ تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر بھی کام ہورہا ہے۔ حکومت کی یہ کوششیں قابل اطمینان ہیں اور ان کا جاری رہنا یقینا ملک کے ایک انتہائی بنیادی مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی ضمانت ہے۔ تاہم بجلی کے نرخ حتی الامکان کم سے کم رکھنے کی کوشش بھی کی جانی چاہیے اور اس کے لئے جوہری توانائی کے ساتھ ساتھ نسبتاً سستے طریقوںیعنی پانی، کوئلے اور ہوا سے بجلی کی تیاری کے منصوبوں پر بھی پوری توجہ دی جانی چاہیے۔ نیزجوہری توانائی کے منصوبے جن حفاظتی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں انہیں بھی آخری حد تک یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔
اگر نجکاری ضروری ہو تو؟
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ منصوبہ بندی و اصلاحات کے جمعرات کو چیئرپرسن سنیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ممبران نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیرون ملک اربوں ڈالر کے اثاثوں کے حامل اس قومی ادارے کی نجکاری کو روکا جائے اور ملازمین کی فلاح و بہبود اور ملازمتوں کے تحفظ کے بعد کمیٹی کو نجکاری کی مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ دنیا بھر میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے ہوئے آگے بڑھتے اور قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن وطن عزیز میں گزشتہ کئی برسوں سے قومی اداروں سے نجکاری کے ذریعے نجات پانے کو ہی ان کو بحران سے نکالنے کا واحد حل سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ منافع بخش اداروں کے بارے میں تو ایسا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔اس کے برعکس ان اسباب کا علاج کیا جانا چاہئے جو ان منافع بخش اداروں کے زوال کا باعث بنے ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے قومی ادارے سیاسی بنیاد پر کی جانے والی بھرتیوں اور بدنظمی کے باعث تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔ ان خرابیوں کا علاج کرکے اور فالتو ملازمین کو احسن طریق سے رخصت کر کے حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ہاں جو ادارے مسلسل کوششوں کے باوجود کسی طرح اپنے خسارے پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ان کی نجکاری ضرور کی جانی چاہئے لیکن اس میں اس امر کی طرف خصوصی توجہ دی جانی چاہئے کہ ان اداروں کے ملازمین کو ترجیحی طور پر دوسرے اداروں میں ملازمتیں دی جائیں کیونکہ وطن عزیز میں ایک عرصہ سے جس معاشی اضطراب کا دور دورہ ہے اگر اس میں ہزاروں افراد کا مزید اضافہ ہو جائے تو اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس لئے اگر کسی سرکاری قومی ادارے کی نج کاری ضروری ہے تو اس نوع کا فیصلہ کرتے ہوئے ملکی و قومی مفاد کو ہر حالت میں مقدم رکھا جانا چاہئے تاکہ اس تاثر کی نفی ہو کہ اس قسم کے اقدامات کسی مخصوص ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔