• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دو کشتیوں کی کہانی ہے ۔دو بہت مختلف کشتیوں کی ۔میرا دعویٰ مگر یہ ہے کہ کہانی درحقیقت ایک ہی ہے ۔

ایک کشتی میں خدا بخش اور اللہ دتہ سینکڑوں دوسرے بے روزگارنوجوانو ں کے ہمراہ سوار تھے ۔ایک نے اپنی ماں کا زیور بیچا ، دوسرے نے باپ کی زمین اور پیسے ایجنٹ کے حوالے کیے ۔ اس امید پر کہ دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح وہ بھی بیرونِ ملک پہنچ کر نہ صرف زیور اور زمین واپس لے لیں گے بلکہ گھر بھی سنور جائے گا۔ان کی زندگی جیسی بھی ہوگی ، ماں باپ اور بیوی بچے تو ایک پر آسائش زندگی کا خواب پورا کر لیں گے۔’’ پچھلے سوکھے ہو جان گے ‘‘ خدا بخش اکثر اللہ دتہ کو کہتا اور وہ تائید میں سر ہلاتا۔پاکستان سے ایران، ایران سے عراق، پھر مشرقِ وسطیٰ سے گزر کروہ ترکی پہنچے اورانہوں نے سن رکھا تھا ’’ ترکی پہنچ گئے تو سمجھو کام ہو گیا‘‘

کشتیوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ مسافر سوار کیے جاتے تھے اور کیوں نہ کیے جاتے کہ یونہی اس کاروبار میں پیسے کمائے جاتے ہیں ۔ بے تحاشا بوجھ تلے دبی کشتی اچانک بے قابو ہونا شروع ہوئی اور ایک طرف جھکتی چلی گئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ الٹ گئی۔ اپنے اپنے خاندانوں کی آسودہ زندگیوں کے خواب آنکھوں میں سجائے خدا بخش اور اللہ دتہ زندگی کی بازی ہار گئے ۔

یہ تو تھی ایک کہانی ۔ اب دوسری سنیں ۔ایک امریکی ٹورازم کمپنی ’’اوشن گیٹ ‘‘اپنے ارب پتی صارفین کو ایک صدی قبل سمندر میں ڈوبنے والے تاریخی بحری جہاز ’’ٹائی ٹینک‘‘ کودکھانے کا اعلا ن کرتی ہے ۔ٹائی ٹینک ساڑھے بارہ ہزار فٹ یا 3.8کلومیٹر گہرائی پر سمندر میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ہزاروں لاکھوں ٹن پانی کا وزن برداشت کرنے کے قابل آبدوزہی اتنی گہرائی تک جا سکتی ہے ۔ ایک ارب پتی پاکستانی تاجر اپنے لختِ جگر کے ہمراہ ٹائٹن نامی آبدوز میں ٹائی ٹینک دیکھنے جاتا ہے کہ اپنے شوق کی تسکین کر سکے ۔ بیٹے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسی مہم جوئی کا شوق نہ رکھتا تھا ۔ دونوں باپ بیٹے نے اڑھائی اڑھائی لاکھ ڈالر کا ٹکٹ حاصل کیا۔پُر آسائش آبدوز میں تمام ضروریاتِ زندگی موجود تھیں ۔

اب آپ دوسری طرف دیکھیں کہ یونان جانے والوں کے پاس اگر اڑھائی لاکھ ڈالر یعنی سات کروڑ روپے جتنی خطیر رقم ہوتی تو وہ کبھی ایسا کوئی رسک لیتے ہی نابلکہ پاکستان میں ہی کوئی کاروبار کر لیتے ۔باقی کہانی وہی ہے ۔ آبدوز کچھ زیادہ اچھی حالت میں نہ تھی ۔ کشتی والوں کی طرح آبدوز کے مالکان بھی زیادہ سے زیادہ کے لالچ میں ڈوبے ہوئے تھے ۔رابطہ منقطع ہو گیا ۔ خرابی کی وجہ سے یہ آبدوز پانی کا بے تحاشہ دبائو برداشت نہ کر سکی اور ایک دھماکے سے پھٹ گئی ۔ نہ پھٹتی تو بھی آکسیجن کم ہوتی جا رہی تھی اوررابطہ منقطع تھا۔

اب آپ کہیں گے کہ یہ تو دو مختلف کہانیاں ہیں ۔ کہاں وہ بھوک کے مارے اور کہاں انوکھے شوق رکھنے والے ارب پتی ۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے لیکن کیا یہ درست نہیں کہ امیر اور غریب کی تخصیص کے بغیر موت دونوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔ایک اپنا پیٹ بھرنے کیلئے بھاگتا چلا گیا ، دوسرا اپنے شوق کی تسکین کیلئے ۔قرآن میں لکھا ہے : زمین میں کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اورہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سونپا جائے گا ۔سورۃ ہود 6۔

پاکستان میں سینکڑوں گھرانے ایسے ہوں گے ، ایجنٹ جن سے پیسے لے کر کھا گئے ہو ں گے۔ وہ اس وقت سجدہ شکر ادا کر رہے ہوں گے کہ جان تو بچی ۔اب جن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ارب پتی تاجر ایسے شوق نہ رکھتے تو بچ جاتے ، ان کیلئے عرض ہے کہ جنید جمشید مرحوم کے بارے میں کیا خیال ہے ۔انہوں نے کون سا ایڈونچر کیا تھا۔ جس جگہ ان کا طیارہ تباہ ہوا، وہاں جانے کا ان کا کوئی ارادہ تھا ہی نہیں۔ جہاں آپ کی موت لکھی ہے ، وہ جگہ آپ کو اپنی طرف کھینچے گی ۔ ایسے بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ ایک شخص نے کسی بدقسمت گاڑی یا طیارے میں کہیں جانا تھا مگر آخری وقت پر اسے رکنا پڑا ۔ ایسے بے شمار واقعات درج ہیں کہ ایک شخص کا ایک گاڑی میں سوار ہونے کا کہیں دور دور تک ارادہ نہ تھا ۔ اچانک حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ اسے اس بدقسمت گاڑی میں سوار ہونا پڑا ۔

ایسا ہی ایک واقع چند برس قبل اسلام آباد کے نواحی علاقے روات میں پیش آیا ۔ ایک معروف اور مالدار شخص ایک چھوٹی سی ہائوسنگ سوسائٹی تعمیر کر رہا تھا ۔ایک دن وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھا۔ کچھ دور جا کر اس نے ڈرائیور سے کہا کہ میں خود ڈرائیو کرنا چاہتا ہوں ۔ ڈرائیور پیچھے بیٹھ گیا ۔کچھ دور جا کر گاڑی الٹی ، اگلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے دونوںدوست جاں بحق ہوگئے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ڈرائیور کو خراش تک نہ آئی۔

ایک اور وڈیو وائر ل ہے ۔ موٹر وے پر ایک بے قابو بس موڑ کاٹتے ہوئے الٹ جاتی ہے ۔سامنے سے آنے والی ایک گاڑی کا ڈرائیور نہایت آرام سکو ن اور ٹریفک قوانین کی پابندی کرتا ہوا آرہا تھا۔ بس نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا۔ خود بس کا ڈرائیور سڑک پہ گرا اور بچ گیا ۔ گاڑی اور بس کے اکثر مسافر ہلاک ہو گئے۔

موت وہ سب سے زیادہ خوفناک چیز ہے ، جو امیر اور غریب کو ایک برابر کر دیتی ہے ۔موت کے روبرو دنیاکا سب سے بڑا سائنسدان اور ایک ان پڑھ کسا ن ایک برابر ہیں ۔ دنیا کا سب سے امیر شخص اور ایک فاقہ کش موت کے روبرو ایک برابر ہیں ۔ یہی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔

تازہ ترین