• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات میں ایک اہم ترین لمحہ اس احساس کا اجاگر ہونا تھا کہ اب وقت آگیا ہےکہ اس کی زبان میں شمولیت کوفروغ دیا جائے۔اس تصور نےقومی اسمبلی کے ایوان میں وجود پایا،جہاں میں نےایک مسؤدہ قانون سازی میں صنفی غیر مشمول زبان کے موجود ہونے کی طرف توجہ مبذول کرائی ۔ قومی اسمبلی کے معزز اسپیکر نے دستور کے آرٹیکل 263 کا اطلاق کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ’’دستور میں مردانہ جنس کی تشریح کرنیوالے الفاظ میں خواتین کو بھی شامل سمجھاجائے ۔‘‘اس دلیل سے پیچھے ہٹنا کہ روایتی زبان کو آئینی اور قانونی متن میں طویل عرصے سے استعمال کیا گیا ہے آسان معلوم ہو سکتا ہے، لیکن یہ صنفی کرداروں اور صنفی مساوات کے بنیادی تصور کے ساتھ شاید ہی ہم آہنگ ہو۔ متعدد ممالک میں، ایک شعور ابھر رہا ہے، جو صنفی غیرجانبدار یا صنف پر مشتمل زبان کے استعمال کی وکالت کرتا ہے۔ یہ بیداری میں اضافہ جمہوری اداروں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی نمائندگی اور حکمرانی کے دائرے میں فیصلہ سازی کی اہم نشستوں پر ان کی موجودگی سے ہوا ہے۔دنیا بھر میں حقوقِ نسواں کی تحریکوں کے تعاون کی وجہ سے سویڈن ،کینیڈا،فن لینڈ اور نیوزی لینڈ جیسے مخصوص دائرہ اختیار میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جہاں قانونی متن کو مختلف انداز میں تحریرکیا جا رہا ہے ۔ یونائٹیڈ کنگڈم اور یورپی پارلیمنٹ میں قوانین مباحثوں اور مذاکروں میں صنف پر مبنی زبان کی شمولیت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ اس مسئلہ پر مباحثوں اور مذاکروں میں مختلف ملکوں میں وسعت آرہی ہے جو زیادہ شمولیت کی جانب سے عالمی تبدیلی کی عکاس ہے ۔پاکستان میں اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہم نے خواتین کے نقطہ نظر کے ذریعے دستو ر کی تشریح کیلئے ایک تاریخی اقدام کا آغاز کیا ۔ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف نے ویمن پارلیمینٹری کاکس کے ساتھ مل کر کام کیاا ور پاکستان ادارہ برائے پارلیمانی خدمات میں دودن بھر پور غوروخوض کیا گیا۔ اس اقدام کیلئے کی گئی پیچیدہ پس منظر کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ پاکستان کا دستور اپنے ابتدائیہ، 280آرٹیکلز پر محیط اپنے وسیع متن، جدولوں اور حلف ناموں میں مختلف طریقوں سے ’’ہم عوام‘‘ کی افراد اور گروہوں کی اہمیت کو اجاگر اور تسلیم کرتا ہے ۔’’دستور کی زبان ‘‘ پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے، میں نے معزز ماہر ین بشمول تجربہ کار سیاستدانوں اور ماہرین مسؤدہ نگاروں کے ساتھ بات کی کہ دستور کی قانونی مسودہ سازی میں مردوں نے قانون کے نفاذ کے دوران کس طرح خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی غیر جانبداری کو روکا ہے۔جناب فرحت اللہ بابر نے ایک ’’لفظ‘‘ کی اہمیت کو واضح کیا کیونکہ یہ محبت، نفرت ، جنگ اور امن کی بنیاد تشکیل دیتا ہے ۔ اس لئے مخصوص حالات میں بالخصوص آئینی دفعات کے لحاظ سے لفظ کی اہمیت کو کم کرنا صنفی مساوات کیلئے مثالی نہیں ہے ۔ بتایا گیا کہ ایک معاشرہ جس میں پدرانہ نظام بہت گہرا ہے وہاں مردانہ زبان کا استعمال کیسے پاکستان کی خاتون کی قانونی وسماجی حیثیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر ہم صنفی مساوات اور صنفی شمولیت کے حصول کی یہ تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ دستور میں ترمیم کی جائے، جب تک اس تاریخی لمحہ تک پہنچیں تب تک ، پارلیمنٹ ، صنفی شمولیتی زبان کو مستقبل کی قانونی عبارات میں استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی قرار داد کو منظور کرنے پر غور کرے ۔ اس ضمن میں ، عمومی شقات ایکٹ، 1897ء میں ترمیم کی جائے تاکہ صنفی شمولیت کی اصطلاح کوشامل کیا جا سکے۔آئین اور قانونی متن میں جامع صنفی زبان کو شامل کرنے کی اہمیت کو ضرورت کے مطابق زور دے کر پیش نہیں کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ زبان ہماری تشریحات کو گہرائی سے تشکیل دیتی ہے، گورننس کے معنی پر گفت و شنید کرنے میں مدد کرتی ہے اور ادارہ جاتی فریم ورک کو سمجھنے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ ہم جن اصطلاحات کو استعمال کرنے کیلئے منتخب کرتے ہیں ، ان کا اثر براہ راست ہمارے سوچنے ، سمجھنے اور رویہ پر پڑتا ہے ۔ ہماری بات چیت اور تحریر ، بشمول صنفی کردار اور تعلقات کے بارے میں ہمارے بنیادی مفروضوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ قانونی متن میں الفاظ کو جس ترتیب میں رکھا گیا ہے وہ ہماری ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں۔صنفی کرداروں کا ارتقاء جو کہ خصوصی طور پر مردانہ اصطلاحات کے استعمال میں پوشیدہ ہے ، اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ صنفی مساوات، شمولیت اور نمائندگی از خود نہیں دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ خواتین کو بیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائیوں کے دوران ’’ووٹ ڈالنے کا حق‘‘ اور’’انتخابات میں حصہ لینے کے حق‘‘ کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا پڑی اور یہ سفر آج بھی کچھ ممالک میں جاری ہے۔چونکہ ہمارا آئینی ڈھانچہ ظاہری طور پر خواتین پر ملک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتا ہے ، لیکن ان دفاتر سے متعلق آرٹیکلز میں بنیادی طورپر مذکر کے اسم ضمیر استعمال کئے جاتےہیں۔ اس سوچ کو ختم کرنے کے ضمن میں اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگرچہ پاکستان میں ایک خاتون وزیراعظم ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں خاتون اسپیکر، ان کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی سطح پر کئی ڈپٹی اسپیکرز رہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ 1973ء سے سندھ میں بطور گورنر صرف ایک خاتون کی تقرری کی گئی ہے ہمیں بطور اٹارنی جنرل یا بطور آڈیٹر جنرل کسی خاتون کی تقرری کا مشاہدہ کرنے کا انتظا رہے۔وقت آگیا ہےکہ اس امر کو یقینی بناتے ہوئے کہ خواتین واضح تشریحات اور پوشیدہ مضمرات دونوں میں نظر آئیں، آئینی اور قانونی متن میں صنفی زبان کو شامل کیا جائے۔ یہ کوشش آئین میں درج پالیسی کے اصولوں کے آرٹیکل 34 کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، جس میں حکم دیا گیا ہے۔ ’’قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں‘‘ آئیے ہم پاکستانی خواتین کو قومی زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔

(مہناز اکبر عزیز پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف اور رکنِ قومی اسمبلی ہیں)

تازہ ترین