سال2013کا اختتام ہوچکا ہے۔تبدیلیوں کے سال کے اختتام پر بظاہر آزمائشوں سے بھرپور سال2014کا آغاز ہوئے آج جب چار روز گزرچکے ہیں اور پورا ملک سرد موسم کی لپیٹ میں ہے مگر سیاسی موسم کی حدت سے برف پگھل رہی ہے اور دھند چھٹنے سے مستقبل کے سیاسی منظرنامے کی واضح جھلک دکھائی دے رہی ہے۔
نئے سال میں میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کو ایک دو نہیں بلکہ کئی درجن چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔مہنگائی کے طوفان سے لے کر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بناناوفاقی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔گزشتہ سال تو مسلم لیگ ن کے پاس عوام کو ریلیف نہ دینے کے لئے کئی جواز تھے مگر اب تو وہ بھی نہیں ہونگے۔تمام بڑے عہدوں پر اپنی منشا کے مطابق تقرریاں بھی کی جاچکی ہیں اب تو عوام نتائج کے منتظر ہونگے۔ 2014کا پہلا امتحان تو حکومت کے لئیے پرویز مشرف کا غداری کیس میں ٹرائل ہی ہے ۔آج جب آئین و قانون کو پامال کرنے والا شخص غداری کیس کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے مگر سال کے پہلے ہی دن سابق صدر و آرمی چیف پر غداری کے مقدمے کا آغاز پوری انتظامیہ کے لئے ایک امتحان بنا ہوا تھا۔ خصوصی عدالت میں مشرف کی آمد کا لمحہ اسلام آباد انتطامیہ کے لئے آزمائش سے کم نہیں تھا۔تمام قوانین و بلیو بک کے برعکس ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک عام شخص کی سیکورٹی پر 1500سے بھی زائد پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے تھے ۔حالانکہ صدر و وزیراعظم کی سیکورٹی کے لئے بھی ایسا انتظام نہیں ہوتا جو جناب پرویز مشرف کے لئے کیا گیا تھا۔یہ وفاقی حکومت کے لئے ایک امتحان ہی ہے کہ ایک شخص کے گھر سے باہر نکلتے ہی پورا شہر مفلوج ہوگیا۔ریڈ زون میں وزیراعظم آفس کے سامنے سڑک کو بھی سیل کردیا گیا۔پرویز مشرف کے ذاتی ڈرائیور نے 2 جنوری کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ دن کے آغاز سے ہی صاحب ٹی وی کے آگے براجمان تھے۔دس بجے کے قریب صاحب کو کسی کا فون آیا،جس سے پرویز مشرف عدالتی کارروائی پر بات کررہے تھے،اچانک انہوں نے غصے سے فون بند کردیااور مجھے کہا کہ اسٹاف کو بلا کر کہوں کہ ہم عدالت جارہے ہیں۔مشرف کے گھر سے نکلنے سے قبل پوری انتظامیہ کو آگاہ کردیا گیا کہ زیرو ٹریفک پروٹوکول لگا دیا جائے۔شاہراہ دستور سے لے کر مشرف کے روٹ سے منسلک ہر سڑک بند کردی گئی۔مگر دل کی تکلیف کہئے یا کچھ اور۔کیونکہ پرویز مشرف کے مخالف وکیل اکرم شیخ نے تو خصوصی عدالت کے برآمدے میں کھڑے ہوکر غیر رسمی گفتگو میں پرویز مشرف کو یہاں تک نشانہ بنایا کہ
درد ہو دل میں تو دوا کیجئے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجئے.......
بہرحال جو بھی تھا مگر وہ سیکورٹی، پروٹوکول اور جان کو شدید خطرہ راول چوک سے راولپنڈی صدر تک کہاں گیا تھا۔جس پر پرویز مشرف نے بغیر سیکورٹی روٹ کے 32 منٹ تک سفر کیا۔کیونکہ انتظامیہ نے تو راول چوک سے خصوصی عدالت کی طرف پروٹول لگایا تھا نہ کہ راول چوک سے آرمڈ فورس انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی۔ جی ہاں پرویز مشرف نے اسپتال تک بغیر سیکورٹی روٹ کے سفر کیا،تو وکلاء کے عدالت میں دئیے گئے وہ خدشات و دلائل کہاں گئے تھے ،جس میں تین ،تین بم اور جناب کو لاحق سخت سیکورٹی خطرات کا بتا یا گیا تھا۔
وفاقی حکومت کی بے چینی کا یہ عالم ہے کہ خصوصی عدالت کے کورٹ روم کے اندر بھی رینجرز کے مسلح کمانڈوز تعینات کردئیے گئے۔عدالت کے تمام کونوں میں پھیلے درجن بھر کمانڈوز عدالتی روایات کے برعکس تھے۔
حکومتی وزیراطلاعات یا دفاع لاکھ کہہ لیں کہ حکومت کو پرویز مشرف غداری کیس میں کوئی دباؤ نہیں ،مگر یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ حکومت کو پرویز مشرف کے حوالے سے بیرونی دنیا بالخصوص دیرینہ برادر ملک کا شدید دباؤ ہے۔ آج بھی وہی لوگ ثالث بننے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں جو اکتوبر 99کے بعد شریف خاندان کو بچانے کے لئے آئے تھے۔بہاولپور کے ریگستانوں میں گزشتہ کئی دنوں سے قیام پذیر ایک خلیجی حکمران بھی اپنے دیرینہ دوست مشرف کے لئے میدان میں کودنے کی تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔
یہ تو ہمارے بھولے بھالے وزیر دفاع ہیں جو کہتے ہیں کہ فوج کو پرویز مشرف کی حمایت کے حوالے سے تردید کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،وہ خو د بطور وزیر دفاع اس کی تردید کررہے ہیں۔لیکن شاید قارئین کو یاد ہو گا کہ ایسے حساس معاملوں پر آئی ایس پی آر خود ہی تردید کرتا ہے۔میمو معاملے میں بھی ملک میں جمہوری حکومت تھی اور وزیر فاع بھی وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے،مگر آئی ایس پی آر نے بطور ایک ادارہ کے ترجمان تردید کی تھی۔ابھی زیادہ دور مت جائیں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے شہداء کے حوالے سے بیان کو ہی لے لیں،تب تو وزیراعظم ہی وزیر دفاع تھے مگر تردید حکومت کی طرف سے نہیں کی گئی تھی بلکہ تردید کی گئی تھی آئی ایس پی آر کی طرف سے۔میاں نواز شریف کے لئے بھی یہ ٹرائل امتحان سے کم نہیں ہوگا کہ وہ کس طریقے سے عدالتی عمل میں رکاوٹ نہیں بنتے۔کیونکہ اگر صہبا مشرف نے شوہر سے خفیہ ڈیل کرنے کا کہا ہے تو کچھ نہ کچھ تو ایسا چل ہی رہا ہوگا ۔ویسے مجھے یاد ہے کہ دی نیوز کے سینئر رپورٹر احمد حسن نے 14 نومبر کو ایک خبر دی تھی،جس میں کہا گیاتھا کہ مسلم لیگ ن کے اہم رہنما پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے پر راضی کررہے ہیں۔آج جب خصوصی عدالت نے روزانہ کی بنیادوں پر اس ٹرائل کا آغاز کردیا ہے،مگر پرویز مشرف کے وکلاء کی پوری فوج مزید کئی دن فرد جرم عائد کرنے میں گزروا دے گی۔ خصوصی عدالت کے تینوں ججز کا آغاز سے ہی کردار لازوال ہے۔مشرف کے وکلاء کی جانب سے ججز پر ذاتی تنقید کے باوجود تینوں معزز ججز نے اسے ذاتی نہیں لیا،بلکہ جب سب توقع کررہے تھے کہ سابق صدر کی گرفتاری کا حکم صادر ہوگا تو انہوں نے بیماری کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک روز کی استثنی ٰ دے دی۔مگر صرف پرویز مشرف کے وکلاء ہی نہیں حکومتی وکیل اکرم شیخ کو بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ان کے لئے کتنا بڑا اعزاز ہے کہ وہ پوری قوم کے نمائندے بن کر آئین توڑنے والے کیخلاف غداری کا مقدمہ لڑ رہے ہیں،مگر انہیں اس قدر رعونت و تکبر زیب نہیں دیتا۔مشرف غداری کیس میں یہ تو طے ہے کہ اگر مقدمہ خصوصی عدالت میں چلا اور مکمل ہوا تو تاریخ اس فیصلے کو سنہری حروف میں یاد رکھے گی،مگر تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔اس لئے تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرانے جارہی ہے۔اب یہ میاں نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ثابت قدم رہتے ہیں۔ مگر مستقبل کا منظر نامہ تو یہی بتا رہا ہے کہ پرویز مشرف ایک مرتبہ پھر ابو ظبی کے دیوان میں دوبارہ گالف کھیلنے کی تیاریوں میں ہیں ،ویسے بھی دل کی تین بند شریانوں کو کھولنے کے لئیے گالف بہتر کھیل ہے۔