کہتے ہیں کہ عوام کالانعام ہوتے ہیں ۔ جانوروں کی سی سمجھ بوجھ والے ۔ پاکستا ن میں یہ بات سو فیصد صادق آتی ہے ۔عوام کو کیا پتہ کہ دنیا شے کیا ہے ۔ انہیں پالیسی سازو ں کے بتائے راستے پہ چلنا چاہئے۔کبھی بھیڑوں سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ کس راستے پہ چلنا پسند کریں گی ۔کیا کبھی کسی نے دائرے میں گھومنے والے بیل سے بھی رائے لی ہے ۔ یہ تو صرف پالیسی ساز ہی کو معلوم ہوتا ہے کہ بیل دائرے میں گھومے گا تو پانی نکلے گا یا چکی چلے گی ۔بیل کی رائے لی جائے تو پالیسی ساز کی جیب خالی نہ ہو جائے۔پالیسی ساز جو ارشاد فرماتا ہے ، وہی حق ہوتا ہے ۔اس امر میں اب کوئی شک نہیں کہ پاکستان دائرے کا مسافر ہے ۔ 80ء کی دہائی میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ ملک کے مفاد میں یہ ضروری ہے کہ میاں محمد نواز شریف نامی ایک نوجوان کو سیاست میں متعارف کرایا جائے ۔ انہیں بھٹو خاندان کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ کو کم کرنے کیلئے متعارف کرایا گیا تھا ۔ کوئی شک نہیں کہ بھٹو خاندان کے ساتھ انہوں نے ایک اچھی جنگ لڑی ۔
بھٹو خاندان اور بالخصوص بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی تھریٹ سمجھاجا تا تھا ۔ بھٹو کو ایک پالیسی ساز نے متعارف کرایا اور دوسرے پالیسی ساز نے پھانسی چڑھا دیا۔لطیفہ یہ ہے کہ دونوں پالیسی ساز حق پر تھے۔ اس کے ردِ عمل میں پیداہونے والے حالات میں بے نظیر بھٹو سیاست میں اتریں ۔ اگر وہ سکیورٹی تھریٹ تھیں تو دو دفعہ وزیرِ اعظم رہنے کے دوران پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تفصیلات مغرب تک کیوں نہ پہنچ سکیں ۔ بعد ازاں بے نظیر کے معاملات پالیسی سازوں کے ساتھ طے پا گئے ۔انہیں این آر او دیا گیا ۔اس کے بعد مگر انہوں نے جسٹس افتخار چوہدری کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ؛چنانچہ سکیورٹی واپس لے لی گئی اور وہ قبر میں جا اتریں۔ حق، حق، حق!
میاں محمد نواز شریف 80ء کی دہائی میں ناگزیر تھے۔ پھر انہیں نکال باہر کیا گیا۔ پھر 2007ء میں وہ ملک لوٹے تو زبردستی سعودیہ بھیج دیا گیا۔ پھر وہ ناگزیر ہوئے اور وزیرِ اعظم بنے۔ پھر انہیں نکالا گیا۔اب پھر وہ ناگزیر ہیں اور واپسی کی تیاری ہو رہی ہے ۔ ایک عشرے میں وہ ناگزیر ہوتے ہیں ، ایک میں انہیں ٹھڈے مار کے نکالا جاتاہے۔ اگر مزید وہ تیس چالیس سال جیتے رہے تو ہم ایسے تین چار ایپی سوڈ اور دیکھ لیں گے ۔عمران خا ن کے سر پہ پرویز مشرف نے ہاتھ رکھامگر جب انہوں نے بچہ جمورا بننے سے انکار کر دیا تو پھر ان کی پارٹی کو تتر بتر کر دیا گیا ۔عمران خاں نے بڑا زور لگایا مگر اقتدار تبھی ملا، جب 2018ء کے الیکشن سے قبل وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ پالیسی سازکے سامنے جھکنا ہی پڑے گا ۔ سو سجدہ کیا اور اقتدار لیا ۔پالیسی سازو ں کو جب آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔120کیسز ا ن پر قائم ہیں ۔ ایک دفعہ ٹانگ میں گولیا ں لگنے کے بعد اب وہ عدالتو ں میں ذلیل ہوتے پھر رہے ہیں ۔ مخالفین کہتے ہیں کہ بالٹی والا گھوم رہا ہے ۔
زرداری کے خلاف کتنے ہی کیسز بنے۔بتایا گیا کہ جعلی اکائونٹس سے پیسہ بیرونِ ملک منتقل کیا گیا۔ بے شمار ثبوت موجود تھے ۔سندھ کابینہ دبئی میںکتنی ہی جائیدادوں کی مالک تھی ۔ شرجیل میمن جیسے پیپلزپارٹی کے کتنے ہی لیڈر جان بچانے کیلئے بھاگتے پھر رہے تھے ۔ منی لانڈرنگ کے ناقابلِ تردید ثبوت شریف خاندان کے خلاف بھی موجود تھے ۔ لندن فلیٹس کو کہاں وہ مانتے تھے ۔
چشمِ فلک نے پھر وہ منظر بھی دیکھا کہ نواز شریف اور بھٹو خاندان کو اکٹھا بٹھا دیا گیا۔ حالانکہ نواز شریف کو تخلیق ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ بھٹو خاندان کی مزاحمت کریں ۔ ہے کو ئی ایسا جادوگر جو سانپ اور نیولے کی دوستی کرادے؟عمران خان کو یہ کہا گیا کہ شریفوں اور زرداریوں کو نہیں چھوڑنا ۔ عمران خان اسی پہ فوکس کر کے روز تقریریں کرتے رہے ۔ روز اٹھ کے اعلان کرتے کہ این آر او نہیں دوں گا ۔دوسری طرف فیصلہ سازوں نے بسا ط ہی الٹ دی ۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا ، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
کبھی الطاف حسین تخلیق کیے گئے تھے ۔ پھر انہیں ختم کیا گیا ۔پھر مصطفی کمال تخلیق ہوئے مگر پنپ نہ سکے ۔ کبھی نون لیگ تخلیق کی گئی تھی ۔ کبھی ذوالفقار علی بھٹو تخلیق کیے گئے ۔کبھی نون لیگ کو چیر پھاڑ کے قاف لیگ تخلیق کی گئی۔ عمران خان کو تخلیق تو نہ کیا گیا تھا لیکن ا ن کے سر پہ ہاتھ ضرور رکھا گیا ۔وہی عمران خان جو 2018ء میں اس ملک کی ترقی و خوش حالی کیلئے لازم و ملزوم تھا ، آج وہ غدار ہے ۔حق، حق ، حق!
اب آگیا نیا آئٹم ، استحکام پاکستان پارٹی، جہانگیر ترین سے التماس ہے کہ اتنے خوش نہ ہوں۔یہ بات ٹھیک ہے کہ اس وقت ریاست استحکام پاکستان پارٹی میں ہوا بھر رہی ہے لیکن آگے ان کے ساتھ جو کچھ ہونا ہے ، وہ ان کے وہم و گمان سے بھی باہر ہوگا ۔
ؔآگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
ایک نظر ایم کیو ایم، قاف لیگ اور ان جیسی دوسری پارٹیوں پہ ڈالتے رہئے اور یہ گنگناتے رہئے
کل پائوں ایک کاسہ ء سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا