دَجّال اس وقت کہاں ہے......؟:حضرت فاطمہ بنتِ قیسؓ روایت کرتی ہیں کہ ’’ایک منادی سب کو نماز کے لیے مسجد میں جمع ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ میں بھی مسجد چلی گئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ مَیں مَردوں کے پیچھے عورتوں کی صف میں تھی۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمالی، تو آپؐ منبر پر تشریف لے گئے، اُس وقت آپؐ کا رُخِ اَنور متبسّم تھا۔
آپؐ نے فرمایا کہ ’’ہر آدمی اپنی نماز کی جگہ پر موجود رہے۔‘‘ پھر آپؐ نے مجمعے سے سوال کیا، ’’کیا تم جانتے ہو، مَیں نے تم لوگوں کو کس لیے جمع کیا ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا، ’’اللہ اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’مَیں نے تم لوگوں کو اس لیے اکٹھا کیا ہے کہ نصرانی تمیم داری میرے پاس آئے تھے، انھوں نے بیعت کی اور مسلمان ہوگئے۔ انھوں نے مجھے ایک بات بتائی، جو مسیحِ دَجّال کے بارے میں ہے، جس کا ذکر میں تم سے کرتا رہا ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ مَیں تیس مزید لوگوں کے ساتھ ایک بحری بیڑے میں سوار ہوا، لیکن سمندری طوفان کی وجہ سے ہم مہینے بھر سمندر میں بھٹکتے رہے۔ پھر ایک دن ہمارا بحری بیڑا غروبِ آفتاب کے وقت سمندر میں ایک جزیرے کے کنارے جالگا۔ ہم بیڑے کی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوگئے۔ جہاں ہمیں موٹے اور گھنے بالوں کے اندر چُھپا ایک جان دار ملا۔
ہم نے اس سے کہا کہ’’ تُو کون ہے اور کیا چیز ہے؟‘‘ اُس نے کہا کہ’’ میں ’’جساسہ‘‘ ہوں۔‘‘ ہم نے کہا کہ ’’جساسہ کیا ہے؟‘‘ (جساسہ معنی بہت زیادہ جاسوسی کرنے والا) اُس نے کہا کہ ’’تم لوگ دیر (راہبوں کی عمارت) میں موجود اس شخص کی طرف چلو، جو تمہاری خبروں کا سخت مشتاق ہے۔‘‘ جب اُس نے ایک شخص کا نام لیا، تو ہمیں خوف محسوس ہوا کہ یہ جساسہ کہیں کوئی شیطان تو نہیں؟ ہم تیزی سے چلتے ہوئے اس دیر میں داخل ہوئے، تو وہاں ہم نے بہت زیادہ عجیب الخلقت اِنسان دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک کا حصّہ لوہے کی زنجیروں کے ساتھ جکڑا ہوا تھا۔
ہم نے کہا ’’تیرا بُرا ہو، تو کون ہے؟‘‘ اُس نے کہا کہ ’’پہلے تم بتاؤ کہ تم کون لوگ ہو اور یہاں کیسے آئے؟‘‘ جواب دیا کہ ’’ہم عرب لوگ ہیں، ہمارا بحری بیڑا سمندر ی طوفان کی زَد میں آگیا، ہم ایک مہینے تک بھٹکتے رہے، پھر ہم تمہارے جزیرے کے کنارے سے جالگے۔ جزیرے کے اندر ہمیں موٹے اور گھنے بے تحاشا بالوں والا جان دار ’’جساسہ‘‘ ملا اور وہ ہمیں تمہارے پاس لے آیا، حالاں کہ ہمیں اس سے سخت ڈر محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں وہ شیطان ہی نہ ہو۔‘‘ اس قیدی شخص نے ہم سے سوال کیا کہ ’’کیا علاقہ بیسان کے کھجوروں کے درخت پھل دیتے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’ہاں، دیتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’وہ وقت قریب ہے، جب وہ پھل نہیں دیں گے۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’مجھے بحیرۂ طبریہ کے بارے میں بتائو، کیا اس میں پانی ہے؟‘‘
جواب دیا کہ ’’اس میں تو بہت پانی ہے۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’قریب ہے کہ اس کا پانی غائب ہوجائے گا۔‘‘ پھر اس نے کہا کہ ’’مجھے (شام کے علاقے) زغر کے چشمے کے بارے میں بتائو کہ کیا چشمے میں پانی ہے اور کیا وہاں کے باشندے اُس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’ہاں، اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے باشندے اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’مجھے اُمّیوں (اہلِ عرب) کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتائو؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’وہ مکّہ سے ہجرت کرکے مدینے میں سکونت پذیر ہوگئے ہیں۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’کیا اہلِ عرب نے ان کے ساتھ جنگیں لڑیں؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’ہاں۔‘‘ اس نے کہا، ’’تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ ہم نے اُسے بتایا کہ ’’وہ اپنے اِردگرد کے عربوں پر غالب آگئے ہیں اور انھوں نے آپؐ کی اطاعت اختیار کرلی ہے۔‘‘
دجّال چالیس راتوں میں پوری دنیا گھومے گا، سوائے مکّہ اور مدینہ کے
اس نے کہا کہ ’’یہ بات اُن کے لیے بہتر ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں اور اب مَیں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ مَیں ہی مسیحِ دَجّال ہوں۔ وہ زمانہ قریب ہے، جب مجھے نکلنے کی اجازت مل جائے گی۔ مَیں نکل کر زمین میں ہر جگہ جائوں گا اور چالیس راتوں کے اندر پوری دُنیا گھوموں گا، کسی جگہ کو نہیں چھوڑوں گا۔ سوائے مکّہ اور مدینے کے۔ وہاں جانا میرے لیے حرام ہے۔ مَیں جب بھی ان دو بستیوں میں جانے کی کوشش کروں گا، تو ایک فرشتہ اپنے ہاتھ میں سونتی ہوئی تلوار لیے میرے سامنے آجائے گا۔ وہ مجھے اس میں جانے سے روک دے گا۔ ان دونوں شہروں کے تمام راستوں پر فرشتے پہرا دے رہے ہیں۔‘‘
فاطمہ بنت قیسؓ کہتی ہیں کہ ’’پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عصائے مبارک کو منبر پر مارا اور فرمایا ’’یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے۔‘‘ آپ کی مراد مدینہ منوّرہ سے تھی۔ پھر فرمایا۔ ’’خبردار رہو! کیا میں تمہیں اس کی خبر پہلے نہیں دے چکا؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’مجھے تمیم کی بات اچھی لگی، وہ اسی کے مطابق ہے، جس کے بارے میں، مَیں تم سب کو آگاہ کر چکا ہوں اور جو کچھ مَیں نے تمہیں مکّہ اور مدینے کے بارے میں بتایا تھا۔ یاد رکھو! وہ شام کے سمندر میں ہوسکتا ہے، یا پھر یمن کے سمندر میں؟‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا کہ ’’نہیں، بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے۔ جو بھی وہ ہے، مشرق کی طرف ہی ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ سیّدہ فاطمہ بنتِ قیسؓ فرماتی ہیں کہ ’’مَیں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُن کر حفظ کرلی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم،7386)۔
قصّۂ دَجّال حدیثِ مبارکہ ؐ کی روشنی میں:حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صُبح دَجّال کا ذکر فرمایا، آپؐ نے ذکر کے دوران کبھی آواز اُونچی اور کبھی نیچی کی، یہاں تک کہ ہمیں ایسا لگا کہ جیسے وہ کھجوروں کے جُھنڈ میں موجود ہے۔ جب شام کو ہم آپؐ کے پاس دوبارہ آئے، تو آپؐ نے ہم سب میں خوف کے شدید تاثر کو بھانپ لیا۔ آپؐ نے ہم سے فرمایا کہ ’’تم لوگوں کو کیا ہوا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا، ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! صُبح کے وقت آپؐ نے دَجّال کا ذکر فرمایا، تو آپؐ کی آواز میں ایسا اُتار چڑھاؤ تھا کہ ہم سمجھے کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔‘‘
اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’مجھے تم لوگوں پر دَجّال کے علاوہ دیگر (جہنّم کی طرف بلانے والوں) کا زیادہ خوف ہے۔ اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں، تو تمہاری طرف سے اس کے خلاف اس کی تکذیب کے لیے دلائل دینے والا مَیں ہوں گا، اور اگر مَیں نہ ہوا، تو ہر شخص اپنی طرف سے حجّت قائم کرنے والا خود ہوگا اور حق تعالیٰ میری غیرموجودگی میں ہر مسلمان کا ناصر اور مددگار ہے۔ وہ گچّھے دار بالوں والا ایک جوان شخص ہے۔ اس کی ایک آنکھ بے نُور ہے۔ میں ایک طرح سے اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں۔ (یہ زمانۂ جاہلیت میں بنو خزاعہ قبیلے کا ایک بدشکل شخص تھا) تم میں سے جو اُسے پائے، اُس کے سامنے سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا، وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہوگا اور بائیں طرف بھی۔ اے اللہ کے بندو! تم ثابت قدم رہنا۔‘‘ ہم نے عرض کیا۔ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! زمین میں اُس کے رہنے کی مدّت کیا ہوگی؟‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’چالیس دن۔ ان میں سے ایک دن ایک سال کی طرح ہوگا، ایک دن ایک مہینے کی طرح ہوگا اور ایک دن ایک ہفتے کی طرح۔ اس کے علاوہ باقی سارے دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے۔‘‘ ہم نے عرض کیا ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دن جو ایک سال کی طرح ہوگا، کیا اس میں ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟‘‘ فرمایا ’’نہیں، بلکہ وقت کا اندازہ کرکے پورے سال کی نمازیں ادا کرنا ہوں گی۔‘‘ پھر ہم نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ زمین میں کس قدر سرعت کے ساتھ سفر کرے گا؟‘‘
وہ گچّھے دار بالوں والا ایک جوان شخص ہے، جس کی ایک آنکھ بے نور ہے
آپؐ نے فرمایا۔ ’’اُس بادل کی طرح، جس کے پیچھے ہوا لگی ہو۔ وہ ایک قوم کے پاس جائے گا۔ انھیں دعوت دے گا۔ وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے، تو وہ آسمان (کے بادل) کو حکم دے گا، تو وہ پانی برسانے لگے گا۔ پھر وہ زمین کو حکم دے گا، تو وہ فصلیں اُگائے گی۔ شام کے اوقات میں اُن کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے، تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اُونچے اور تھن دُودھ سے بہت بھرے ہوئے اور ان کی کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ پھر دَجّال ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انھیں بھی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی بات کو ٹھکرادیں گے۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا، تو وہ قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ اُن کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کے ہاتھ میں نہیں ہوگی۔ وہ ویران زمین کے پاس سے گزرے گا، تو اس سے کہے گا کہ اپنے خزانے باہر نکال دے۔ چناں چہ ویران زمین سے وہ خزانے نکل کر اس کے پیچھے اس طرح لگ جائیں گے، جس طرح شہد کی مکّھیاں اپنی سردار کے پیچھے ہولیتی ہیں۔
پھر وہ ایک بھرپور جوان کو بُلائے گا اور تلوار کے وار سے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا اور دونوں ٹکڑے اس قدر فاصلے پر کردیئے جائیں گے، جس قدر تیر مارنے والے اور نشانے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ پھر وہ اسے بُلائے گا، تو وہ (زندہ ہوکر) دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ وہ (دَجّال) اسی عالم میں ہوگا، جب اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کو مبعوث فرمادے گا۔ وہ دمشق کے مشرقی حصّے میں ایک سفید مینار کے قریب دو کیسری کپڑوں میں دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اُتریں گے۔ جب وہ اپنا سر جھکائیں گے، تو قطرے گریں گے اور سر اُٹھائیں گے، تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔ کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا۔ اس کے پاس مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
ان کی سانس کی خوشبو وہاں تک پہنچے گی، جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُسے تلاش کریں گے اور باب الُد پر اسے پکڑ کر قتل کر دیں گے، پھر آپ لوگوں کے پاس تشریف لائیں گے اور بطور شفقت اُن کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور اُنھیں جنّت میں اعلیٰ درجات کی خوش خبری سُنائیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم،7373، سنن ابنِ ماجہ 4075)۔ (LYUDIA) شہر موجودہ دَور میں اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے 15کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چودہ سو سال قبل جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی، اُس وقت لُد ایک چھوٹا سا غیراہم گاؤں تھا۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ یہ شہر بین الاقوامی شہرت اختیار کرے گا۔
اسرائیلی حکومت اس شہر پر خصوصی توجّہ دیتی ہے۔ یہاں ایک بین الاقوامی جدید ہوائی اڈّا بھی ہے، جس کا ایک ٹرمینل جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے اور 1999ء میں قائم ہونے والے اس ٹرمینل کو ابھی تک نہیں کھولا گیا۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ جب اُن کا مسیح الدَجّال دُنیا میں آئے گا، تو پوری دُنیا کو یہودی بنادے گا، لیکن اگر بقول مسلمانوں کے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد اُس کی جان کو کوئی خطرہ محسوس ہوا، تو اُسے فوری طور پر اُس جدید ٹرمینل سے تیز ترین جہاز میں سوار کرواکر کسی ہم درد یورپی یا امریکی شہر بھیج دیا جائے گا۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ یہودیوں کا یہ مقدّس مسیح کس طرح حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں اپنے بدترین انجام سے دوچار ہوگا اور اس کی مددگار شیطانی قوّتیں ناکام و نامراد ہوں گی۔ (جاری ہے)