اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اظہار رائے کی آزادی جدید دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔خصوصاََ یورپ اس امر کا دعوے دار ہے کہ اس نے یہ آزادی صدیوں کی محنت اور قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے۔وہ اس حقیقت کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کو کسی طور پر بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو یورپ میں ''اسلام مخالف مہم'' کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ ہے۔اظہار رائے کی آزادی کے آڑ میں اسلامی شعائر پر حملہ کرنا،توہین رسالت کا ارتکاب کرنا،وقتا فوقتا قران کریم کی توہین کا، دانستہ،علی الاعلان ارتکاب کرنا،مسلمانوں کے حلیہ کی توہین کرنا یہ وہ حرکات ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں سرانجام دی جاتی ہیں۔جب پوری دنیا میں ان حرکات کے خلاف پرامن احتجاج کیا جاتا ہے تو یورپ بڑے آرام سے کندھے اچکا کر یہ کہتا ہے کہ ہمارے ہاں اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق بغیر حدود و قیود کے دیا گیا ہے؟کیا صرف ایک طبقے کے ہی حقوق ہیں؟اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں کروڑوں لوگوں کے جذبات مجروح کئے جا سکتے ہیں؟کیا اس حق کو استعمال کرتے ہوئے امن عالم خطرے میں ڈالا جا سکتا ہے؟کیا اس حق کے استعمال کے نتیجے کے طور پر منافرت اور معاشرتی دوری برداشت کی جا سکتی ہے؟ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے۔پوری مہذب دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے سوسائٹی نے خود اپنی حدود متعین کر رکھی ہیں تاکہ کسی انسانی رویے کی وجہ سے علاقائی رسم و رواج، اخلاق اور مسلمہ معاشرتی اقدار مجروح نہ ہوں۔یہاں تک کہ مختلف ممالک کے دساتیر میں بطور قانون یہ بات درج ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل جو انسانی وقار کو مجروح کرنے کا باعث بنے اسکی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اسی طرح تمام الہامی کتب کو جدید مہذب دنیا میں بھی یہ مقام حاصل ہے کہ ان کے وقار کے منافی کوئی بھی اقدام ناقابل قبول ہے۔بدقسمتی سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی اظہار رائے کے حوالے سے یورپ نے ہمیشہ دوغلے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔کیا کوئی شخص یہ تصور بھی کر سکتا ہے کہ وہ سویڈن میں ہی تورات کا نسخہ لیکر اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے پہنچ کر جلانے کا عزم کرے تو کیا اسے سویڈن میں رہنے دیا جائے گا؟کیا یورپ کے مختلف ممالک میں عیسائی مذہبی روایات کا مذاق اڑانے والا شخص قانون کی گرفت سے بچ پائیگا؟میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ قرآن اور اسلامی شعائر کے حوالے سے یورپ نے ہمیشہ دوغلے پن اور تعصب کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ حجاب پر پابندی کا معاملہ ہو،توہین آمیز خاکے بنانے کا سانحہ ہو،یا پھر قرآن کریم جلانے کے واقعات، ان سب واقعات پر یورپی ممالک نے اظہار رائے کی آزادی کو ڈھال بنایا ہے اور ان اقدامات کو تحفظ فراہم کیا ہے۔اس طرح کے واقعات کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی کتاب کو نذر آتش کرتا ہے تو گویا کہ وہ اس کتاب کے سامنے اپنی شکست تسلیم کر رہا ہوتا ہے کہ اسکے پاس اسکے مندرجات کا کوئی جواب نہیں اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے وہ اس کتاب کو جلاتا ہے۔کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں (سورہ بقرہ) قرآن تمام روحانی اور جسمانی امراض کیلئے شفا ہے،(سورہ بنی اسرائیل) اس میں حکمت و دانائی ہے (سورہ یونس) قرآن کریم کی تمام آیات محکم ہیں،(سورہ رعد) قرآن اللہ کا نور اور کتاب مبین ہے (سورہ المائدہ) اس نوعیت کی کثیرآیات قرآن مجید میں جا بجا موجود ہیں جن میں قرآن پاک کا تعارف خود قرآن نے پیش کیا ہے،یہ وہ جامع کتاب ہے جس میں عقائد عبادات معاملات اور معاشرت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کیلئےرہنمائی موجود ہے۔یہ علم و ہدایت کا ایک ایسا سمندر ہے جو رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے کافی رہے گا۔یہ ایک ایسی الہامی کتاب ہے جس نے جدید دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنیاد رکھی۔انسانوں میں تجسس اور تحقیق کی تڑپ پیدا کی،بلا شبہ موجودہ دور کا صنعتی اور معاشی انقلاب بھی قرآنی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض بیمار ذہنیت کے لوگ اس کی تعلیمات کا جواب دینے میں بے بسی ظاہر کرتے ہوئے اس کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں اور یورپ اسے آزادی اظہار رائے کا نام دے کر تحفظ دیتا ہے۔عام طور پر اس طرح کے اقدامات کووہاں کی انتظامیہ کی مکمل اشیر باد حاصل ہوتی ہے اس لئے مسلم امہ کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔یورپ کے بنائے ہوئے قوانین میں ہی اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں جا کر اس طرح کے دل سوز اقدامات روکنے کیلئے کوششیں کی جائیں۔حکومتی اور سفارتی سطح پر یہ یورپ کو باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ اسلامی شعائر کی بے حرمتی خود یورپی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔تمام اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو اس موقع پرقائدانہ کردار ادا کرنا چاہئےاور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ایک وسیع پیمانے پر ڈائیلاگ کا اہتمام کرنے کی کوشش کی کرنی چاہئے تاکہ اسلام اور عیسائی دنیا کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلے کو کم کیا جائے،یورپی حکمرانوں کے سامنے اس کی حساسیت واضح کی جائے،اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی زندگیوں کو قرآن کے تابع کیا جائے،اور اپنی معاشرت کو قرآنی تعلیمات کا نمونہ بنایا جائے،تبھی ہم انفرادی اور ریاستی سطح پر اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرسکیں گے۔