گزشتہ ہفتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی متحدہ عرب امارات آمد اور بعد ازاں سعودی عرب روانگی سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ نواز شریف کے دبئی کے اچانک دورےسے جہاں مختلف قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں وہاں سعودیہ روانگی سےان قیاس آرائیوں کو مزید تقویت ملی۔ نواز شریف کے دبئی پہنچنے کے بعد اگلے روز آصف علی زرداری بھی وہاں پہنچ گئے نواز شریف کو دورہ امارات کے دوران دئیے گئے سرکاری پروٹوکول سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس دورے کو سرکاری سطح پر اہمیت دی جا رہی ہے نواز شریف کا دورہ اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ یہ پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد سے تین ماہ قبل ہوا۔ اگرچہ اس دوران ان کی کسی اعلیٰ شخصیت سے ملاقات کی کوئی خبر نہ آئی اور نہ ہی نواز شریف سے آصف علی زرداری کی ملاقات کی خبر کی تفصیلات جاری کی گئیں۔ دبئی میں ہونیوالی ’’سیاست کاری و سفارت کاری‘‘ کے پاکستان کی سیاست پر اثرات کے پیش نظر ملاقات کو خفیہ رکھا گیا لہٰذا نواز شریف کی دبئی آمد سے یہ تاثر دیا گیا کہ ان کے دورے کا مقصد امارات کے تاجروں اور صنعت کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ہے، البتہ مولانا فضل الرحمن کا اس حوالے سے شدید رد عمل آیا کہ ان سے بالا بالا ہی نگران سیٹ اپ، نشستوں کی تقسیم اور عام انتخابات کے بعد صدر اور وزیر اعظم کے مناصب پر بات چیت ہوئی ہے۔ اس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں بلوا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی تاہم مولانا فضل الرحمن مستقبل کے سیاسی نقشہ پر نواز شریف سے بات چیت کرنے پر مصر ہیں۔ تاہم شہباز شریف نے انہیں بڑی حد تک رام کر لیا ہے اس لئےیہ بات وقتی طور دب گئی ہے۔ مریم نواز بھی نواز شریف سے ملاقات کے دبئی پہنچ گئیں۔ نواز شریف دبئی میں ہفتہ عشرہ قیام کے بعد جدہ چلے گئے جہاں ان کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سعودی حکام سے ملاقاتوں کا امکان ہے۔ نواز شریف کو رمضان المبارک کےآخری عشرے کے دوران بھی سعودی عرب میں سرکاری طور پروٹوکول دیا گیا تھا۔ ان کی ولی عہد محمد بن سلیمان سے ملاقات کے بعد بتایا گیا تھا کہ نواز شریف کچھ دنوں بعد دوبارہ سعودی عرب آئیں گے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی سعودی حکام سے ملاقاتوں کی کوئی خبر تو منظر عام پر نہ آئی البتہ اس دوران سعودی عرب کی طرف سے 2ارب ڈالر کا تحفہ پاکستان کو موصول ہو گیا۔ پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے معاشی پابندیاں عائد ہوں یا پاکستان مالی مشکلات کا شکار ہو سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مالی امدادکے لئے تیار نظر آیا ہے، ویسے تو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 75سال سے لازوال دوستی قائم ہے، اس پورے عرصے کے دوران یمن میں پاکستانی افواج بھجوانے کے معاملہ پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کچھ ماہ کیلئے سرد مہری آئی تھی اسی طرح سابق وزیر اعظم عمران خان کے طرز عمل نے شہزادہ محمد بن سلیمان کو نالاں کر دیا تھا چونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ریاستی سطح پر قائم ہیں لہٰذا سابق وزیر اعظم کے ذاتی طرز عمل کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ نہ آیا۔ نواز شریف کے دور حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات قائم رہے ہیں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات کی وجہ سے ملک کے نئے وزیر اعظم اور آرمی چیف سب سے پہلے سعودی عرب جانے کو ترجیح دیتے رہے ہیں پاکستان میں آئینی و سیاسی بحران ہو یا حکومت کے خلاف تحریک چلائی جا رہی ہو سعودی عرب کے سفیر کی ’’دوستانہ مداخلت‘‘ کا حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک میں پاکستان میں سعودی سفیر نے ’’ثالث‘‘ کا کردار ادا کیا۔ 23سال قبل سعودی عرب ہی نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کی دستبرد سے بچا کر اپنے پاس لے گیا تو جنرل پرویز نواز شریف کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا، شریف خاندان 5سال تک سعودی حکومت کا ’’مہمانِ خاص‘‘ رہا جب 10دسمبر2000ء کو جنرل پرویز مشرف نے شریف خاندان کو ’’جلاوطن‘‘ کیا تو جدہ ایئر پورٹ پر نواز شریف کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا گیا انہیں شاہی مہمان کا درجہ حاصل تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو سعودی حکومت کے حوالے کیا تھا لیکن جس طرح سربراہ مملکت کے طور پر نواز شریف کا استقبال کیا گیا اس سے اسلام آباد کے حکومتی حلقوں میں خاصی پریشانی پائی جاتی تھی۔ 28مئی1998ء کو ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر پوری دنیا نے معاشی پابندیاں عائد کر دیں تویہ سعودی عرب ہی تھا جس نے نواز شریف دور میں 1.8بلین ڈالر ’’موخر ادائیگی‘‘ کی مد میں پاکستان کو مفت تیل فراہم کرنے کا وعدہ کیا جو بعد ازاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران بھی جاری رہا، مجھے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتا یا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے سعودی عرب میں نواز شریف کی پذیرائی بارے میں تحقیقات کرائی تو انہیں بتایا گیا کہ ’’شاہ فہد نے شریف خاندان کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں شاہ فہد کے خاندان کے افراد شریک ہوئے سعودی حکمران کی طرف سے کسی غیر ملکی مہمان کو اتنی عزت نہیں دی گئی جتنی نواز شریف کو دی گئی، اسی طرح نواز شریف نے کسی افریقی ملک کے دورے پر جاتے ہوئے جدہ میں اسٹاپ اوور کیا تو شاہ فہد سے خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر شاہ فہد نے ان سے واپسی کا پروگرام پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ استنبول رکتے ہوئے اسلام آباد واپس چلے جائیں گے لیکن شاہ فہد نے کہا کہ میں جہاز ترکی بھجوا کر آپ کو جدہ لے آئوں گا لہٰذا آپ مجھے واپسی پر بھی ملتے جائیں، شاہ فہد کے اصرار پر نواز شریف کو اپنا واپسی کا شیڈول تبدیل کرنا پڑا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو 2007ء میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں تو لیول پلیئنگ گرائونڈ دینے کیلئے سعودی عرب نے مداخلت کر کے نواز شریف کو بھی پاکستان واپس آنے کی اجازت دلوا دی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف اور سعودی حکمران کے درمیان کس قدر قریبی تعلقات ہیں نواز شریف عمران خان کی حکومت میں گئے تو علاج کیلئے تھے لیکن پھر برطانیہ رک گئے اب وہ عام انتخابات کے قریب وطن واپس آنا چاہتے ہیں اس مقصد کیلئے وہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب آئے ہوئے ہیں ممکن ہے آئندہ چند دنوں میں ’’سفارت کاری اورسیاست کاری‘‘ کے نتیجے میں نواز شریف پاکستان واپس آنے کی تاریخ کا اعلان کر دیں۔