• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14؍جولائی کو ایک اور سانحہ رونما ہوا۔ آپ غور کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ روز ایک نیا آدمی میدان میں اترتا اور پچھلے کا ریکارڈ توڑ دیتاہے ۔کمپنیاں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہی ہیں ۔ ’’کریم‘‘ نامی کمپنی جس ملک میں جائے گی، اس کے مقابلے میں آپ فوراً ہی ’’اوبر‘‘ کو اترتا دیکھیں گے ۔ ٹیکنالوجی سے محروم ٹیکسی ڈرائیور کسی سواری کو لے کر جاتا ہے تو واپسی پر خالی آتا ہے ۔ وہ کریم اور اوبر کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں جو شخص اور جو قوم آگے ہے ، وہ دوسرے ، قبیلے ، کمپنی اور قوم کو پچھاڑ کے رکھ دے گی۔

نوکیا کتنی بڑی کمپنی تھی ۔9مئی 2016ء کو اس کے سی ای او نے روتے ہوئے اپنی پریس کانفرنس میں کہا : ’’ہم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا لیکن پتہ نہیں کیوں ہم ہار گئے ۔‘‘یہ اس کمپنی کی داستان ہے ، جو دن رات محنت کر رہی تھی۔ ٹیکنالوجی میں اتنی تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیںکہ ذرا کسی نے پلک جھپکی ، دوسری کمپنیاں تکہ بوٹی کر دیتی ہیں۔

14؍جولائی کو یہ سانحہ رونما ہوا کہ بھارت نے چاند کی طرف اپناراکٹ روانہ کر دیا ۔ہم فی الحال ایک بڑی پارٹی کے بطن سے پرویز خٹک کی نحیف و نراز سیاسی جماعت کی پیدائش کا جشن منا رہے ہیں ۔نومولود کو اب آکسیجن دی جائے گی۔سیاسی لیڈر منحرف کرائے جا رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے درمیان دنگل جاری ہے ۔سیاسی رہنما قید ہیں ۔ محترمہ یاسمین راشد کیلئے دل بہت دکھتا ہے ، جو بوڑھی اور بیمار ہیں ۔ دل پتھروں سے زیادہ سخت ہو جاتے ہیں ۔

معیشت کا حال یہ ہے کہ مہینوں منتیں کرنے کے بعد دو تین ارب ڈالر ادھار ملنے پر جشن کا سماں ہے ؛حالانکہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی ہی میں صرف ہوں گے ۔ بنگلہ دیش کے پاس اس وقت 31ارب ڈالر کازر ِ مبادلہ موجود ہے ، جنہیں ہم حقیر سمجھتے تھے۔دنیا میں پاکستانیوں کی شہرت یہ ہے کہ اول درجے کے ہڈ حرام اور جھگڑالوواقع ہوئے ہیں۔موقع ملتے ہی مقدمے بازی کرتے اور کمپنی کا مال اینٹھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کو کام دینے سے سو گنا بہتر ہے کہ بنگلہ دیشی یا بھارتیوں کو رکھ لیں ۔

ایک اوورسیز پاکستانی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ؟ کہنے لگا کہ اکثر بھارتیوں نے اپنی پوری زندگی میں ٹائلٹ بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ جب وہ برطانیہ آتے ہیں تو پائونڈ دیکھ کر پاگل ہو جاتے ؛چنانچہ دن رات محنت کرتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اکثر پاکستانیوں نے اپنے ملک میں ساری سہولتیں دیکھ رکھی ہوتی ہیں۔ وہ چند پائونڈ کیلئے خون پسینہ ایک نہیں کرتے ۔ عذرِ گناہ بدتر از گناہ ۔ ایک تو کام نہیں کرتے ، اوپر سے اس پہ فخر بھی!وہ کام کر کے بھی گھٹیا ، ہم فارغ رہ کر بھی اعلیٰ ۔ یہ والا کانفیڈنس اگر ہو زندگی میں تو اور کیا چاہئے۔پاکستانیو ں کی ایک بڑی تعداد کام کوئی نہیں کرتی بلکہ فقط تصورِ جاناں میں گم رہتی ہے۔

بھارتی اور بنگلہ دیشی قدم قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ان کے دلو ں میں پاکستان کے خلاف غم و غصہ بھرا ہوا ہے ۔ہمارا حال یہ ہے کہ پہلے شیخ چلی کا ایک منصوبہ عمران خا ن نے بنایا کہ ایک کروڑ نوکریا ںدیں گے ۔ اب زراعت والا منصوبہ پیشِ خدمت ہے ۔ کپتان کو بھی تو آپ ہی لے کر آئے تھے۔ اس کے ساڑھے تین سالہ دور میں یہ زرعی انقلاب کیو ںنہ رونما کیا گیا؟ یہ نہیں کہ زراعت سے انقلاب آنہیں سکتا۔ آپ مگر بھارت سے لڑیں گے ،تحریکِ انصاف کو فتح کریں گے یا زراعت سنبھالیں گے ؟ پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی کسی وقت بس آپس میں جھگڑنے ہی والی ہیں۔

ایک طرف حریم شاہ سیاستدانوں کی وڈیوز جاری کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے ۔اِدھر دوسری طرف سیاسی لیڈر پریس کانفرنسز کروا کے ، نہلا دُھلا کے نئی پارٹیوں میں شامل کئے جار ہے ہیں ۔تجربے کرنے والے تھکتے نظر نہیں آرہے۔

فردوس عاشق اعوان، جہانگیر ترین، پرویز خٹک، فیاض الحسن چوہان ، اگر آپ غور کریں توبنیادی اجزا وہی ہیں ۔ یہ خانساماں کا جگرا ہے کہ انہی اجزا سے ہر دفعہ نئی ڈش تخلیق کرتا ہے۔

کشمیر پہ بھارت کا قبضہ مستحکم ہو چکا ۔ جو لڑائی اور توانائی ہمیں ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور بھارت کے خلاف صرف کرنا تھی ، وہ اندرونی مارکٹائی میں صرف ہو رہی ہے ۔سانحہ ء چودہ جولائی رونما ہوچکا لیکن ہمارے وہم و گمان سے بھی باہر ہے کہ ہم بھی چاند کی طرف اپناراکٹ روانہ کرنے کا سوچیں ۔ہماری امیدوں کا مرکز یہ ہے کہ بھارتیوں کا مشن اِن شاء اللّٰہ ناکام ہوگا۔ ہم اب شاید کبھی سانحہ 9مئی سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

اب بھی معاملات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں، اگر کوشش کی جائے تو ۔پشاور کی طرف منہ کر کے مگر آپ کبھی ملتان نہیں پہنچ سکتے۔

پاکستان کے جو حالات ہیں ، ان میں مجھے نی اینڈرتھلز کی یاد آتی ہے ۔ نی اینڈرتھلز ہم سے ذرا مختلف قسم کے انسان تھے۔ ہماری تاریخ تین لاکھ سال کی ہے ۔ وہ ہم سے ایک لاکھ سال پرانے تھے۔دونوں سپیشیز نے تین لاکھ سال اکٹھے گزارے لیکن پھر جسمانی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود وہ سکڑتے چلے گئے ۔ وجہ دماغ کا استعمال اور مل کر کام کرنے کی صلاحیت ۔ پاکستان تباہی کے راستے پر بگٹٹ دوڑتا چلا جا رہا ہے۔

ہوش کے ناخن اگر نہ لئے گئے تو وہ وقت دور نہیں، جب ہم ایٹمی پروگرام کا سودا کرنے پہ مجبور ہونگے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین