میاں نواز شریف اقتدار سے باہر ہمیشہ قسمت کے دھنی رہے ہیں، مگر اقتدار جونہی ان کے پاس آتا ہے ، ان کی قسمت کا ’’ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔ اب موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیجئے ،اپوزیشن میں تھے تو زرداری حکومت تاریخ انسانی کی بدترین حکومت دکھائی دیتی تھی۔ نواز لیگی اکابرین صبح، دوپہر، شام کے حساب سے اس بدحکومتی کا ماتم کیا کرتے۔ ہمارے دوست ماسٹر جی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دور میں ٹی وی چینلز پر چلنے والے ٹاک شوز پیپلز پارٹی کی قتل گاہ بن چکے تھے اور ہر چار منٹ بعد حکومت کو ایک گالی ضرور پڑا کرتی تھی۔ آصف علی زرداری سے لوگوں کی مایوسی کا عالم یہ ہوچکا تھا کہ ان کے مقابلے میں اگر بشیر آنڈہؔ بھی ووٹ مانگتا تو عوام انکار نہ کرتے۔ آنڈہؔ صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ موصوف اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں اب تک چھوٹے بڑے ملا کر تقریباً تین درجن الیکشن لڑچکے ہیں اور ماسوائے ایک بلدیاتی انتخاب کے، وہ ہر ایک میں بری طرح ہارے ہیں، البتہ بلدیاتی انتخاب میں وہ انتہائی بری طرح ہارے تھے۔
چنانچہ مثال خاصی موزوں ہے، واقعی زرداری صاحب اور ان کے ساتھیوں نے سیاست اور حکومت کا جو حشر کیا اس کے بعد توبشیر آنڈہ صاحب بھی بلاشبہ جیت سکتے تھے۔ ٹریک ریکارڈ تو عمران خان کا بھی بشیر آنڈےؔ والا ہی تھا مگر اس بار وہ بھی اچھی خاصی سیٹیں جیت گئے، اگر ’’جنرل پاشاؔ پلان‘‘ پر عملدرآمد روک نہ لیا جاتا تو عمران کی سیٹیں چار گنا زیادہ ہوتیں اور آج وہ وزیر اعظم ہوتے، لیکن امریکہ نے عین وقت پر موصوف کی منجھی ٹھونک ڈالی اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے پاس نواز شریف کے علاوہ اور کوئی چوائس ہی نہ بچی، کہ آپ کم از کم بشیر آنڈے سے تو بہرحال بہتر ہی تھے۔ خدارا ، یہاں عمران خان کو بشیر آنڈہ ہرگز مت سمجھا جائے، شکریہ!خیر، اقتدار سنبھالتے ہی نواز شریف پر مسائل کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ موصوف نے پہلا سال صرف سوچنے اور حیران ہونے میں صرف کرڈالا۔2014ء کا سورج ان کے لئے مشرف کی شکل میں ایک نیا مخول لے کر طلوع ہوا۔ کیا ہی ا چھا ہوتا اگر حکمران خاندان مشرف کو اس کے حال پرچھوڑ کر آگے کی طرف دیکھتا مگر افسوس کہ’’مصیبت طلب مشیروں‘‘ کو جب اپنے قائد کے لئے کوئی عمدہ سی نئی مصیبت دستیاب نہ ہوئی تو ا نہوں نے مشرف کو ذلیل و رسوا کرنے کے لئے ا یک بھونڈی سی ایڈونچر کا آغاز کرڈالا۔
ہمارے دوست ماسٹر جی چونکہ اندر کے معاملات تک رسائی رکھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ حکومتی مشیروں کا پلان یہ ہے کہ مقدمے کا فوری فیصلہ کروا کے مشرف کو سزائے موت دلوادی جائے تاکہ ہتھکڑی لگے سابق جرنیل کا فوٹو سیشن پوری دنیا کے سامنے پیش کرکے اس سے ایک دلخراش سا معافی نامہ حاصل کرلیا جائے، پھر اس کے بعد سعودی دوستوں پر احسان عظیم کرتے ہوئے سابق فوجی ڈکٹیٹر کو بالکل اسی حالت میں ملک بدر کردیا جائے جس میں شریف خاندان کو کیا گیا تھا۔
اس مہم جوانہ پنگے بازی کا پہلا شاخسانہ تو فوجی ردعمل کے طور پر کافی کھل کر سامنے آچکا ہے۔ مشرف کے خلاف حکومتی وکیل جناب اکرم شیخ صاحب اس تلخ حقیقت کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ کپتان سے لے کرجرنیل تک پاک فوج کا ہر افسردن میں کم از کم ایک بار مشرف کے بارے میں ضرور سوچتا ہوگا۔ افسروں کی اکثریت پیشہ ورانہ اعتبار سے سابق فوجی ڈکٹیٹر کو اپنا جد امجد مانتی ہے چنانچہ ہتھکڑی، پیشی اور معافی نامے سے متعلق مشہور کہانی نے دلوں میں جو اضطراب برپا کررکھا ہے اس میں بتدریج شدت آتی جارہی ہے اور مارچ تک یہ برہمی اپنا پہلا جلوہ پیش کرے گی۔
ماسٹر جی کے مطابق نواز شریف کے لئے دوسری انتہائی نقصان دہ بات سعودی حکمرانوں کی مبینہ ناراضی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مشرف پاکستان آئے ہی سعودی یقین دہانی پر تھے مگر نواز شریف کے انتہائی قریبی حلقہ احباب کی طرف سے معافی اور ہتھکڑی کی فرمائش نہایت طفلانہ فعل ہے اور اڑتے تیر کو بغل میں لینے کی مترادف ہے۔ سعودی فرمانروا اس حوالے سے بے حد برہم ہیں مگر نواز شریف کی طرف سے مبینہ یقین دہانی نے معاملے کو ایکبار پھر قدرے نارملائز کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تلخی کے آثار فی الحال ظاہر نہیں ہوئے اور نہ ہی ظاہر ہونے کی امید ہے کیونکہ شریف برادران اپنے ان دوستوں بلکہ محسنوں کو خواب میں بھی ناراض نہیں کرسکتے، البتہ معاملہ کافی حد تک سنگینی اختیار کرچکا ہے اور اس کا منہ بولتا ثبوت سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کی اسلام آباد موجودگی ہے۔ ذرا تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھئے کہ شہزادہ سعود الفیصل اس سے پہلے کتنی مرتبہ اور کب کب پاکستان تشریف لائے ہیں؟ دروغ برگردن’’ماسٹر جی‘‘ نواز شریف کے شدید اصرار کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے معافی نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس انکار کے سبب مضطرب فوجی افسروں کے ہاں مشرف کی قدر و منزلت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے آخری گزارش ان احباب کی خدمت میں ہے جو اس بات پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لانے کے بعد نواز شریف فوج کے مالک و مختار بن چکے ہیں کہ فوج کو آج بھی آرمی چیف ہی چلا رہا ہے اور آرمی چیف فوج کو اس کی قدرتی نبض کے مطابق چلاتا ہے ، وزیر اعظم خواہ نواز شریف ہو یا بینظیر۔ محترم اکرم شیخ صاحب کی تشویش اور دوسری طرف سے جاری ٹھنڈ پروگرام بذات خود ایک کھلا پیغام ہے، ہیں جی؟
اب ہوگا یہ کہ مشرف معافی مانگے بغیر نہایت اطمینان کے ساتھ عنقریب دوستوں کے بھیجے اڑن کھٹولے پر سوار ہو کر ملک سے باہر چلے جائیں گے مگر نواز شریف کے خلاف خواہ مخواہ بوئے جانے والے بیجوں میں سے نفرت کی کونپلیں لگاتار پھوٹتی چلی جائیں گی۔ اوپر سے یہ سال افغانستان سے امریکی انخلاء کا سال بھی ہے اور یہاں سے صرف فوج ہی نہیں نکلنی تقریباً 28ارب ڈالر مالیت کا سازو سامان بھی نکلے گا اور یہ بات محترم طارق فاطمی صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ امریکہ پہلے ہی نیٹو سپلائی بند کرنے کی دھمکیوں ،دھرنوں اور حکومت کی بدحواسیوں سے خاصا تنگ آچکا ہے۔اب اگر آپ ان تمام مسائل کو بڑھتی ہوئی غربت ، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، عدم برداشت اور صوبائیت کے تناظر میں دیکھیں تو شاید آپ کو بھی اندازہ ہوجائے کہ واقعی اقتدار میں آتے ہی نواز شریف کی قسمت کا ہاسا نکل جاتا ہے!!