ہندوستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی بےچینی کے پیشِ نظر 1927ء میں کانگریسی لیڈر پنڈت موتی لال نہرو نے مرکزی اسمبلی میں تجویز پیش کی کہ آئینی مسائل کے تصفیے کیلئے برطانوی حکومت راؤنڈ ٹیبل کانفرنس بلانے کیلئےقدم اٹھائے۔ مسٹر جناح نے اِس تجویز کی تائید کی جس کے باعث ملک میں آئینی سرگرمیاں تیزتر ہو گئیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پنڈت موتی لال نہرو ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ ہندو مسلم اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ جداگانہ انتخابات ہیں، حالانکہ کانگریس نے 1916ء میں اِسی طریقِ انتخاب پر اتفاق کیا تھا اور اِسی بنیاد پرمیثاقِ لکھنؤ پر دستخط ہوئے تھے۔ کانگریسی قیادت کی بدعہدی کے باوجود قائدِاعظم کی یہی کوشش رہی کہ حصولِ آزادی کا ایک ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس میں ہندو قیادت کا اعتراض بھی دور ہو جائے اور مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے اطمینان بخش تحفظ کی ضمانت بھی مل جائے۔ اُنہوں نے مسٹر آئنگر، جو اُس وقت کانگریس کے صدر تھے، کی تجویز پر غور کرنے کیلئے 20 مارچ 1927ء کو دہلی میں مسلم لیڈروں کا ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں چوٹی کے رہنما شریک ہوئے۔ شرکاء میں مولانا محمد علی جوہرؔ، سر عبدالقادر، راجہ صاحب محمود آباد، سر محمد شفیع، ڈاکٹر مختار اَحمد انصاری، سر مولوی محمد یعقوب، نواب اسمٰعیل خان، سر عبدالرحیم، مولوی شفیع داؤدی، راجہ غضنفر علی خان، عبدالمتین چودھری، پروفیسر ذوالفقار علی خاں اور صاحبزادہ عبدالقیوم شامل تھے۔ اجلاس میں درج ذیل تجاویز منظور ہوئیں:
(1) مسلمانوں کے یہ نمائندے ہندو مسلم اِتحاد کی خاطر جداگانہ انتخاب سے دستبردار ہونے پر آمادہ ہیں، بشرطیکہ اُن کے تمام اہم اور بنیادی مطالبات یکجا منظور کر لیے جائیں۔ (2) سندھ کی بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی عمل میں لائی جائے اور اُسے مسلم صوبے کی حیثیت دی جائے۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں سیاسی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ (3) پنجاب اور بنگال کی مقننہ میں مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی بحال کی جائے۔ (4) مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی دی جائے۔
قائدِاعظم نے ’تجاویزِ دہلی‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہم جداگانہ انتخاب سے صرف اِسی صورت میں دستبردار ہو سکتے ہیں جب ہماری تمام تجاویز منظور کر لی جائیں۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ جداگانہ انتخاب بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اَپنے حقوق کے تحفظ کی ضمانت مل جائے۔‘‘ محمد علی کریم چھاگلہ جو ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے، اُنہوں نے قائدِاعظم کو ایک عظیم رہنما قرار دَیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ مسٹر جناح ہی تھے جنہوں نے اپنی طلسمی چھڑی سے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔‘‘ مسز سروجنی نائیڈو نے اُنہیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا۔ کانگریسی لیڈروں نے بھی ’تجاویزِ دہلی‘ کا خیرمقدم کیا۔ میری نوائن آئینگز نے اِن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’عرصہ دراز کے بعد یہ موقع آیا ہے کہ سرکردہ مسلم زعما نے اِس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان میں پائیدار بنیادوں پر قومی زندگی استوار کی جائے۔‘‘
اِن تاثرات اور خیالات کے برعکس ہندو پریس اور سیاسی قیادت نے اِن تجاویز پر کڑی تنقید شروع کر دی۔ روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ نے لکھا کہ شاید مسلمان مخلوط انتخابات پر اَپنی رضامندی ظاہر کر کے اِس کی قیمت سندھ اور سرحد میں وصول کرنا چاہتے ہیں۔ اُدھر کانگریس ورکنگ کمیٹی اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے ’تجاویزِ دہلی‘ کو منظور کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن چھ ماہ بعد اِس میں تبدیلی کر ڈالی۔
مولانا محمد علی جوہرؔ نے ’تجاویزِ دہلی‘ کے پیچھے کارفرما فلسفۂ سیاست کو تحفظ و توازن (Check & Balance) کے نام سے موسوم کیا، یعنی اگر ہندو سات صوبوں میں اکثریت میں ہیں، تو اِن تجاویز پر عمل درآمد کے نتیجے میں، مسلمان بھی پانچ صوبوں میں اکثریت میں ہوں گے۔ اِس طرح دونوں قوموں کے درمیان سیاسی طاقت کا توازن قائم رہے گا اور وُہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کر سکیں گی۔ اُس وقت مسلمانوں کے صرف دو صوبے تھے جہاں مقننہ تھی، لیکن اُن میں مسلمانوں کی اکثریت برائے نام تھی، کیونکہ 1919ء کی آئینی اصلاحات میں اُنہیں آبادی سے کم نشستیں دی گئی تھیں۔حُسنِ اتفاق سے دسمبر1927ءمیں ’تجاویزِ دہلی‘ کانگریس کے سالانہ اجلاس میں بھی منظور کر لی گئیں۔ اُسی ماہ جناح مسلم لیگ گروپ کا سالانہ اجلاس جناب محمد یعقوب کی صدارت میں ہوا جس میں ’تجاویزِ دہلی‘ پر مہرِ تصدیق ثبت کی گئی۔ اُسی اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ کانگریس کی آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ کے نمائندے شریک ہوں گے تاکہ ہندوستان کے سیاست دان اپنے طور پر ایک متفقہ دستور مرتب کر سکیں۔
بعدازاں مسلم لیگ میں ایک عجیب و غریب صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ سر محمد شفیع، جو دہلی میں مسلم رہنماؤں کے اجلاس میں شامل ہوئے تھے اور مخلوط انتخابات اپنانے کے اجتماعی فیصلے میں شامل تھے، اُنہوں نے لاہور پہنچ کر جداگانہ انتخابات کے حق میں اور مخلوط انتخابات کے خلاف مہم شروع کر دی۔ اِس مسٔلے پر آگے چل کر مسلم لیگ دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصّے کی قیادت مسٹر جناح کر رہے تھے اور دُوسرے کی سر محمد شفیع۔ سائمن کمیشن کی تشکیل نے اِس تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔ ہندو پریس اور اِنتہاپسند ہندو جماعتوں کی تخریبی سرگرمیوں نے عامۃ المسلمین کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ قائدِاعظم جس خلوص اور اِستقامت کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کیلئے کوشاں ہیں، تاریخ کا دھارا اُس کے خلاف بہہ رہا ہے اور ہندو قیادتوں کی یقین دہانیاں طفل تسلیوں کے سوا اَور کچھ نہیں،چنانچہ علامہ اقبال جداگانہ انتخاب کے حق میں فعال ہو گئے۔ اُن دِنوں صوبائی مسلم لیگ کے زیرِاہتمام ایک جلسہ برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میں منعقد ہوا جس میں اُنہوں نے جداگانہ انتخاب کے حق میں یہ قرارداد پیش کی کہ مسلم لیگ اپنے اِس عقیدے کا اعلان کرتی ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں صرف جداگانہ انتخاب ہی کے ذریعے مرکزی مجلسِ قانون ساز اور صوبائی کونسلوں میں باشندگانِ ہند کی حقیقی نمائندگی ممکن ہے۔ یہ قرارداد عظیم اکثریت سے منظور ہوئی جس سے پورا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا گیا۔ سائمن کمیشن کے تقرر سے مسلم لیگ میں تقسیم گہری ہو گئی، مگر اُس پر دانش مندی سے قابو پا لیا گیا اور کوشش کی گئی کہ ہندوستان کے سیاست دان ایک متفقہ دستور تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ (جاری ہے)