مجھے خبر یا نہ تحریریں پڑھنے کی عادت نہیں۔ مگر فاروق عادل جو ایک زمانے میں ممنون حسین صاحب کے پریس سیکریٹری تھے، انہوں نے ایک بڑی دبیر کوشش کی ہے عاصمہ شیرازی کی طرح ’’بڑے گھر کی کہانیاں‘‘کے نام سے۔ وہ بھی اسکندر مرزا کے زمانے سے آج تک کی کہ کیسے بڑے گھروں سے نکالا گیا۔ ان کو جو اخبار کے تراشوں میں سربراہ کے نام سے لکھے گئے، وہ یادداشتیں ڈائریاں بھی بنیں، کتابیں بھی بنیں مگر ہمارے معاشرے نے نہ ماضی کی غلطیوں اور نہ سیاسی خاص طور پر 75سال کے ابتدا میں ناظم الدین صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے اتارنے سےیہ سلسلہ، سال بہ سال چلتا رہا۔
اپنی طرف سے اسکندر مرزا نے موجود سیاست دانوں کے پیروں کے نیچے سے سیڑھی گھسیٹ کر، براجمان ہوتے ہوئے، ایوب خان سے سرسری طور پر پوچھا ’’کیا میں آنے والے کل میں ہونگا‘‘ اس لمحے ایوب خان نے بڑی بشاشت سے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ مگر 20 دن کےبعد دروازہ کھولا تو باہر اسٹین گنوں والوں کے ساتھ بہت سے سینئر افسران کھڑے تھے مگر سلیوٹ نہیں کررہے تھے۔ بلکہ آگے بڑھ کر پیغام دے رہے تھے کہ سر ’’آپ پاکستان چھوڑ دیں کہ یہی ملک کے مفاد میں ہے‘‘۔ یہ قاعدہ مرتب کیا گیا، ایوب خان قدم بقدم آگے بڑھتا گیا کہ 65کی جنگ میں دبنگ تقریر جو الطاف گوہر نے لکھی تھی۔ وہ پڑھنے کے بعد ایسی رعونت سمائی کہ بزعم خود فیلڈ مارشل بن گیا۔
اب یہ کھیل قومی کھیل بن گیا۔ فاروق عادل نے پوری کتاب میں کوئی بات اپنی یادداشت کے تحت لکھی نہیں۔ انہوں نے اکثر جگہ تاریخیں دی ہیں، سیاست دانوں اور صحافیوں خاص کر جابجا مجیب الرحمان شامی صاحب کے مضبوط حوالے بھی دیئے ہیں۔تاریخ اپنے اوراق بدلتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس طرح کا کھیل یحییٰ خان نے کھیلا۔ صحافت نے اپنا رنگ دکھایا۔ جب ایوب خان کا انتقال ہوا تو اخباروں میں دو سطری خبر تھی ’’سابق صدر انتقال کرگئے‘‘۔
بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کی رنگینوں میں بھنگ ڈال دی اور بلا کسی حجت کے، مارشل لا سربراہ بن گئے۔ ہر چند بعد میں جمہوریت کی ہوا چلی۔ سوٹ اور کرتہ شلوار عام ہوئے اور بھٹو صاحب حکومت کے زعم میں، اپنی سیاست کا بنیادی ایجنڈا بنانے والوں کی ٹانگیں توڑنے سے آگے ہی آگے اپنے مخالفین کو اپنی زبان کی کاٹ سے منحرف کرواتے رہے۔ تو ضیاالحق کو یہ کہہ کر آرمی چیف لگایا کہ بہت سیدھا اور خوشامد کرنے والا ہے۔ پتہ کھیلنے کی باری اس طرح ضیا کے ہاتھ آگئی۔سیاست کا رنگ بدلنے کو فوج نے سویلین لوگوں کو آزمانے کیلئے، نئے چہروں کو اپنی شرائط کے ساتھ یکے بعد دیگرے جب چاہا حکومت پر بٹھایا، جب چاہا نیچے اتار دیا۔
وزیراعظم کے علاوہ ایک اور عہدہ بھی اس شطرنج کی بساط پر مسلسل ڈولتی نیا کی طرح رہا۔ ان کے نام لینا شروع کروں تو چوہدری فضل الٰہی سے شروع کرکے جب آخر میں تارڑ صاحب تک پہنچتی ہوں تو ان کو بھی فوجی سربراہوں نے آکر کہا ’’یہ بات آپ کو محفوظ راستہ دیگی کہ آپ خود ہی صدارت کی کرسی چھوڑ دیں‘‘۔ کچھ دن تو اس عاقل و بالغ شخصیت نے مزاحمت کی کوشش کی۔ پھرایک دن صبح وہ اپنا سامان لیکر باہر گاڑی میں بیٹھے، تو سربراہ جس نے نکالا تھا۔ ان کی رخصتی کورنش بجا لارہا تھا۔ مگر تارڑ صاحب کو یہ مصنوعی اداکاری پسند نہ آئی اور وہ چلے گئے۔چار سال پہلے پھر مسند صدارت پر ایک شریف آدمی کو لوگوں کے دانت صاف کرنا چھڑوا کر، بٹھادیا گیا۔ بٹھانے کے عمل میں فوجی اور سول بزرجمہر شامل تھے۔ انہوں نے ایک شخص کوعامل کی طرح حکومت کرنے کے گُر سکھائے اور وعدہ کیا کہ ہمارے روبوٹ فائلیں چلاتے رہیں گے تم جب جی کرے جہاں جی کرے آئو جائو۔ وہ اپنے ادارے کا پکا نکلا۔ جتنے ارمان نکالنا چاہےنکالے۔ پاکستان کے ماحول کو ضرب پہ ضرب لگاکر، جب قابو سے باہر، اپنے آنے لانے والوں پہ کاری ضرب لگائی اور اب وزارت عظمیٰ کو ایک فوج ظفر موج ایسے روبوٹس کی پکڑادی کہ وہ اختیارات کو لاہور کے میئر کی طرح استعمال کرتے رہے۔
وہ شریف آدمی دام سیاست میں گھر کر صدارت کو من و سلویٰ سمجھ کر، کھاتے رہے۔ وہ اور بیگم فیتے کاٹتے اچانک بلھے شاہ کے مصرعے ’’بلھےنوں سمجھاون آئیاں بھینڑاںتے بھرجائیاں‘‘۔ ہر عمل کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے رہے۔ مسند عزیز تھی، نئی حکومت کو بھی وہ آرام سے دہی کھانے دے رہے تھے اور خود بھی شاہ عنایت کی طرح صبر کرکے اپنے حواریوں کو تلاش کرتے، ’’گلیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘، کی طرح صلح نامے کی تسبیح پڑھتے رہے اور خدا سے عاقبت کیلئے دعا مانگتےاور مجید امجد کا شعر پڑھتے ہیں۔
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
فاروق عادل! مجھے معاف کرنا، تمہاری کتاب میں نے چرالی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)