اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے الیکشن کمیشن کے گواہ پر جرح کی۔
دورانِ سماعت جج ہمایوں دلاور نے سوال کیا کہ کیا توشہ خانہ کیس کے گواہ آئے ہوئے ہیں؟
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ دونوں گواہ آئے ہوئے ہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ امجد پرویز آپ ابھی بیٹھ جائیں۔
وکیل امجد پرویز نے گواہ سے کہا کہ سوال سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پوچھ لیں، آپ نے خواجہ حارث صاحب سے بحث نہیں کرنی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دورانِ جرح گواہ سے مکالمے کی کوشش کی جس پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ خدا کے واسطے! آپ جو کہیں گے ایسے تو پھر گواہ وہی کہے گا۔
وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے سوال کیا کہ آپ نے شکایت پر کب دستخط کیے؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ شکایت کمپیوٹر سے نکالی گئی، ویریفکیشن خود ہی نکلی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے یہ نہیں پوچھا، یہ بیان نہیں، جرح ہے، قانونی طور پر اس کی اجازت نہیں۔
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ شکایت کی ویریفکیشن اکتوبر 2022ء میں کی گئی۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے شکایت دائر کرنے سے پہلے تفصیل سے شکایت کو پڑھا تھا؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ جی میں نے تمام تفصیلات شکایت دائر کرنے سے قبل پڑھی تھیں۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ شکایت میں لکھا ہے کہ آپ ڈپٹی الیکشن کمشنر تعینات تھے؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ شکایت میں لکھا گیا، میرا ڈپٹی الیکشن کمشنر کا عہدہ ٹائپنگ کا مسئلہ تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی کا آپ کو کب معلوم ہوا؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ مجھے شکایت دائر کرنے کے بعد اپنے عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی کا معلوم ہوا۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا 2 ہفتے بعد آپ کو ٹائپسٹ کی غلطی کا معلوم ہوا؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ مجھے تاریخ یاد نہیں، کہہ سکتے ہیں کہ 1 ماہ کے بعد غلطی کا معلوم ہوا۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ عہدے کی غلطی کا معلوم ہوا تو کوئی درخواست دائر کی؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں نے عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی پر کوئی درخواست عدالت میں دائر نہیں کی۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا پہلا بیان دیتے ہوئے اپنے عہدے کی ٹائپنگ کا بتایا؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں نے پہلا بیان دیتے ہوئے عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی کا ذکر نہیں کیا۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے بیان میں بتایا کہ ڈپٹی الیکشن کمشنر کا کوئی عہدہ ہوتا ہی نہیں؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے عدالت کو نہیں بتایا کہ ڈپٹی الیکشن کمشنر کا کوئی عہدہ نہیں ہوتا۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا کوئی بیانِ حلفی شکایت کے ساتھ جمع کرایا تھا؟ شکایت کے ساتھ دائر بیانِ حلفی کدھر ہے؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ توشہ خانہ کیس کی دائر شکایت کے ساتھ بیانِ حلفی لگایا ہوا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ شکایت کے ساتھ دائر بیانِ حلفی کی تاریخ بتا دیں؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ 8 نومبر 2022ء کو بیانِ حلفی جمع کرایا تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ بیانِ حلفی سے پہلے دائر شکایت کی تفصیلات پڑھی تھیں؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ ظاہر سی بات ہے تفصیلات پڑھ کر ہی بیانِ حلفی جمع کرایا تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس میں برا منانے والی کیا بات ہے؟
اس موقع پر پی ٹی آئی کے معاون وکیل کے بولنے پر جج ہمایوں دلاور نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل ہیں؟ نہیں تو نہ بولیں! اب آپ بولے تو آپ کو کمرۂ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا۔
وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے سوال کیا کہ آپ کو کب معلوم ہوا کہ کہاں مکمل دستخط اور کہاں انیشیئلز ہونے چاہئیں؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ زیادہ اہم کام ہو تو مکمل دستخط کرتا ہوں ورنہ انیشیئلز کر دیتا ہوں، شکایت زیادہ اہم دستاویز تھی، جس پر مکمل دستخط کیے، بیانِ حلفی کم اہم تھا اس لیے اس پر انیشیئلز کیے۔
خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے درستگی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میرے مطابق آپ نے شکایت دائر کرتے وقت اوتھ لیا اور جھوٹ بولا، دائر شکایت کی ویریفکیشن پر کہیں نہیں لکھا کہ یہ اوتھ پر دیا گیا ہے۔
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں نے شکایت دائر کی اور اوتھ پر دائر کی۔
دورانِ جرح خواجہ حارث اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے درمیان نوک جھونک بھی ہوئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ہر تیسرے سوال کے بعد آپ کہتے ہیں کہ گواہ کو بتایا ہو گا، قانون کے دائرے میں رہ کر جو میرا کام ہوا وہ میں کروں گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بیانِ حلفی پر گواہ کو ٹھیک نہیں لگا کہ مکمل دستخط کرنے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ گواہ نے ویریفکیشن کے لیے بیانِ حلفی پر پہلے ہی بیان دے دیا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ حقیقت ہے کہ نہ تو مکمل دستخط آپ کے ہیں، نہ انیشیئلز، میں اگر کہوں کہ بیانِ حلفی پر بھی آپ کے نہیں بلکہ کسی اور کے دستخط ہیں؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ میں حلف پر اپنے مکمل دستخط اور انیشیئلز کا اقرار کرتا ہوں، میرے پاس اس وقت کوئی دستاویز نہیں جس پر اپنے انیشیئلز کو ثابت کر سکوں۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ وکیل امجد پرویز کو کیوں دیکھ رہے ہیں؟
جج ہمایوں دلاور نے ہدایت کی کہ آپ خواجہ حارث کو دیکھیں یا مجھے دیکھیں۔
وکیل خواجہ حارث نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس ہی جھوٹا ہے، یہ لوگ ہی جھوٹے ہیں، امجد پرویز ایسے بولتے رہے تو میں ٹرائل کو آگے نہیں بڑھاؤں گا۔
جج ہمایوں دلاور نے وکیل امجد پرویز کو جرح کے دوران بولنے سے روک دیا۔
گواہ وقاص ملک نے بتایا کہ کچھ سرکاری دستاویزات ہوں گی جہاں میں نے انیشیئلز کیے ہوں گے۔
خواجہ حارث نے استدعا کی کہ گواہ کو دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی جائے جہاں انیشیئلز کیے ہوں، کیا آپ اپنے انیشیئلز عدالت کو فراہم کر سکتے ہیں؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ جی! میں دستاویزات پر کیے گئے انیشیئلز فراہم کر سکتا ہوں۔
وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی کہ مزید جرح کے لیے عدالت حکم دے کہ گواہ اپنے انیشیئلز والی دستاویزات فراہم کرے۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے انیشیئلز والی دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست پر اعتراض کیا اور کہا کہ انیشیئلز کی دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست کا ٹرائل کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں، بیانِ حلفی کو دائر شکایت کے ساتھ منسلک کرنا قانون میں ضروری نہیں۔
گواہ کے دستخط جھوٹے ہیں: خواجہ حارث
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گواہ کے دستخط جھوٹے ہیں جس پر شکایت کنندہ کی بد نیتی ظاہر ہوتی ہے، توشہ خانہ کیس پر الیکشن کمیشن کی سماعت کب ختم ہوئی؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ معلوم نہیں کہ الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ کیس پر آخری سماعت کب ہوئی۔
خواجہ حارث نے گواہ سے جرح کی کہ 19 ستمبر 2022ء کے بعد الیکشن کمیشن میں کوئی سماعت ہوئی تھی؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ نہیں معلوم کیونکہ الیکشن کمیشن کی سماعتوں سے متعلق مجھے کچھ پتہ نہیں، میرے پاس الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ کیس کا ریکارڈ نہیں۔
خواجہ حارث نے گواہ سے سوال کیا کہ جب اسپیکر قومی اسمبلی کا ریفرنس آیا تو سیاسی جماعتوں کو نوٹس کا معلوم ہے؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس پر دستخط کا مجھے معلوم نہیں۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ کو الیکشن کمیشن کے چیئرمین پی ٹی آئی کو جاری کیے گئے نوٹس کا معلوم ہے؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دائر کیا، نوٹس ضرور جاری ہوئے ہوں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اور میری شکایت میں بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو جاری نوٹس تحریر ہے۔
خواجہ حارث نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس ہوئے ہوں گے؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ ریکارڈ دیکھ کر بتاتا ہوں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ریکارڈ دیکھیےگا، امجد پرویز کو نہ دیکھیے گا۔
جج ہمایوں دلاور نے امجد پرویز سے کہا کہ آپ کا دیکھنے کا انداز بہت ہی خطرناک ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے سوال کیا کہ توشہ خانے کا ریکارڈ الیکشن کمیشن نے کب منگوایا؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ 14 اکتوبر 2022ء کو توشہ خانے کا ریکارڈ الیکشن کمیشن نے منگوایا۔
وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ سے متعلق ریکارڈ لائے ہیں؟
گواہ وقاص ملک نے جواب دیا کہ شکایت سے متعلق ریکارڈ موجود ہے، شکایت کی حد تک میرا تعلق ہے، الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ سے متعلق ڈپٹی ڈائریکٹر لاء آج ریکارڈ نہیں لائے۔
وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ کا ریکارڈ نہیں ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ریکارڈ لایا جائے۔
جج ہمایوں دلاور نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ کا اس سے کیا تعلق ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ کا بہت گہرا تعلق ہے، گواہ سارا بیان الیکشن کمیشن سے متعلق دے رہا ہے۔
امجد پرویز نے اعتراض کیا کہ کیا کہ چیئرمین پی ٹی کے وکلاء نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ یہاں چیلنج کیا ہے؟ ساری غیر متعلقہ جرح ہو رہی ہے، میں بولا نہیں کہ خواجہ صاحب ناراض ہوتے ہیں، توشہ خانے سے تحائف لیے گئے اس سے متعلق جرح نہیں کی جا رہی، عدالت کے سامنے کیس شکایت سے متعلق ہے، جو الزامات ہیں ان پر وکیلِ صفائی نے بات کرنی ہے، شکایت کے ساتھ جتنا ریکارڈ ہے اسے دیکھنا حق ہے، ریکارڈ کل بھی موجود تھا آج بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن کی سماعت سے متعلق گواہ کا کوئی تعلق نہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو یہاں چیلنج نہیں کیا گیا، شکایت سے متعلق ریکارڈ موجود ہے جو عدالتی ریکارڈ کا بھی حصہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی امجد پرویز نے الیکشن کمیشن کی سماعتوں کا ریکارڈ منگوانے پر اعتراض اٹھا دیا۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی توشہ خانے پر سماعت آزادانہ تھی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ اس عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا، شکایت کنندہ نے اس عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف الزامات کو ثابت کرنا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جج نے الیکشن کمیشن کی سماعتوں سے متعلق وکیل خواجہ حارث کی درخواست کو خارج کر دیا۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ عدالت کہہ رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کی سماعتوں کا ریکارڈ غیر اہم ہے۔
اس موقع پر خواجہ حارث نے توشہ خانہ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ ایک حصہ مکمل کر لیا ہے، آج جمعہ بھی ہے۔
جج ہمایوں دلاور نے ہدایت کی کہ نمازِ جمعہ کے بعد جرح مکمل کر لیں، جرح ادھوری نہیں چھوڑ سکتے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اور بھی کام ہیں، میں نے عدالت کے ساتھ تعاون کیا، کافی لمبی جرح ہو گئی۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ پیر تو ہو ہی نہیں سکتی، آئندہ سماعت ہو گی تو کل ہو گی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے خود نمائندہ مقرر کر دیا، ایسے تو نہیں چلے گا۔
جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ آپ نے کبھی جرح ادھوری چھوڑی ہے؟ پہلے گواہ وقاص ملک کی حد تک مکمل کریں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فریش ہونا ہے، پیر تک سماعت ملتوی ہو گئی تو کیا ہو جائے گا؟
جج ہمایوں دلاور نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ آپ گواہ وقاص ملک پر جرح مکمل کریں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آج جرح مکمل ہو ہی نہیں سکتی، پھر عدالت کے اوقات 24 گھنٹے رکھ لیں، جرح ہفتے ہفتے تک چلتی ہے، آپ چاہتے ہیں کہ آج ہی سب کچھ ہو جائے۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کے پاس آج جرح مکمل نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ذہنی طور پر مزید جرح کے لیے تیار نہیں، میری فیملی آ رہی ہے۔
جج ہمایوں دلاور نےخواجہ حارث کی سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور انہیں نمازِ جمعہ کے بعد جرح مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سوری! میں جمعے کے بعد دستیاب نہیں، اس کے ساتھ ہی وہ کمرۂ عدالت سے باہر چلے گئے۔
عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس کی سماعت میں نمازِ جمعہ تک کا وقفہ کر دیا گیا۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل گوہر علی خان عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ سینئر کونسل دستیاب نہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ سینئر وکیل شیر افضل مروت ہیں؟
وکیل گوہر علی خان نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے سینئر وکیل خواجہ حارث ہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ شیر افضل میرے بھی سینئر رہ چکے ہیں، میرے سینئر سول جج تھے۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ اچھا لگا کہ آپ نے اچھے الفاظ میں یاد کیا، مجھے بھی بولنے کا موقع دیں، ہمارے ساتھ بھی تعاون کریں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ سماعت روزمرہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔
وکیل شیر افضل مروت نے سوال کیا کہ کیا ڈائریکشن ہیں کہ روزمرہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی؟
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کوئی ڈائریکشن نہیں، میری اپنی ڈائریکشن ہے یہ۔
وکیل شیر افضل مروت نے جج سے کہا کہ میں بیرسٹر گوہر علی خان کا بھی سینئر ہوں، عدالت پر جو انگلیاں اٹھ رہی ہیں انہیں میں روکوں گا، ٹرولنگ کرنے والوں کو میں خود روکوں گا، عدالت ہمارے ساتھ تعاون کرے، ہم عدالت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، کچھ گنجائش کریں، پیر تک سماعت ملتوی کریں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کل آپ کے ساتھ تعاون کریں گے۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ ٹھیک ہے، پھر کل آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔
کمرۂ عدالت میں بیرسٹر گوہر علی کے ماموں کی وفات پر فاتحہ پڑھی گئی۔
عدالت نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل دن ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔