صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت، کوئٹہ میں مدرسۃ البنات تعلیم القرآن توحیدیہ کا قیام 1986ء میں عمل میں آیا۔ اِس مدرسے کے بانی، ممتاز مذہبی اسکالر، ڈاکٹر قاری عبدالرشید الازہری ہیں، جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے فاضل اور حافظِ قرآن ہونے کے ساتھ فنِ قرأت میں بھی نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ اُنھوں نے جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ عالمِ اسلام کی قدیم ترین درس گاہ، جامعہ ازہر، مصر اور جامعہ اُردن سے بھی مختلف کورسز کیے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کاؤنسل اور مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے رُکن بھی رہ چکے ہیں۔ اُنھیں تعلیم کے میدان میں اعلیٰ خدمات پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2007ء میں تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر قاری عبدالرشید الازہری نے بلوچستان جیسے قبائلی روایات کے حامل صوبے میں خواتین کی دینی تعلیم کے لیے مدرسے کے قیام سے متعلق بتایا کہ’’مَیں جب جامعہ ازہر، مِصر سے واپس آیا، تو یہ بات محسوس کی کہ بلوچستان میں طلباء کی دینی تعلیم کے لیے بڑے بڑے مدارس موجود ہیں، مگر طالبات کے لیے کوئی باقاعدہ دینی درس گاہ نہیں ہے، تو یہ کمی پوری کرنے کے لیے صوبے کی پہلی دینی درس گاہ، مدرسۃ البنات کی بنیاد ڈالی۔
اِس ادارے کا افتتاح پاکستان کی عظیم دینی درس گاہ، جامعہ گجرات کی پرنسپل صاحبہ کی دُعاؤں سے ہوا،جنھوں نے نہ صرف یہ کہ مدرسۃ البنات کی سرپرستی قبول کی، بلکہ درس وتدریس کے لیے اپنے ہاں سے فارغ التحصیل قاریہ اور معلّمات بھی فراہم کیں۔ دراصل، جب ہم نے مدرسہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا، تو بلوچستان میں خواتین اساتذہ موجود نہیں تھیں، جس پر مَیں اپنی والدہ کے ساتھ ٹرین کے ذریعے گجرات پہنچا، جہاں میری والدہ نے مدرسے کی پرنسپل صاحبہ کے سامنے سارا ماجرا رکھا اور اُن سے درخواست کی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے اپنے مدرسے کی خواتین اساتذہ کوئٹہ بھجوائیں تاکہ ہم وہاں خواتین کی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کر سکیں، جس پر وہ رضا مند ہو گئیں۔
پہلے سال 100طالبات نے ناظرۂ قرآن کی کلاسز میں داخلہ لیا، بعدازاں شعبۂ حفظ اور دیگر شعبوں کا بھی اضافہ ہوگیا، جب کہ جلد ہی وہاں پرائمری اسکول بھی قائم ہوگیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ مدرسہ میرے والد، مولانا عبدالواحد کی دینی خدمات اور فیوض و برکات کا تسلسل ہے، وہ 1982ء میں حج کی سعادت کے لیے مکّۃ المکرّمہ گئے، تو وہیں اُن کی وفات ہوگئی اور اُنھیں جنّت المعلیٰ میں سپردِخاک کیا گیا۔ درحقیقت، میرے والد کی محنت اور کوششوں سے اِس علاقے میں دینی شعور بیدار ہوا اور لوگ دین کی طرف راغب ہوئے، جب کہ تبلیغی جماعت بھی اِس علاقے میں لوگوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے۔‘‘
خواتین کی تعلیم سے متعلق اُن کا کہنا ہے کہ’’عورت کے بغیر کسی معاشرے کا تصوّر تک ممکن نہیں،مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کی زندگی ادھوری ہے۔عورت ہی گھر کو جنّت کا نمونہ بناتی ہے،جس طرح مرد گھر کی حفاظت کرتا ہے، اِسی طرح سلیقہ مند بیوی بھی گھر کی محافظ ہے۔ اِسی لیے خواتین کا تعلیم یافتہ اور باکردار ہونا بے حد ضروری ہے کہ آنے والی نسل کی تربیت کی ذمّے داری انہی کے کندھوں پر ہے۔ اگر عورت تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوگی، تو ایک بہتر معاشرہ وجود پا سکے گا۔
تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجّہ نہیں دیتے اور اگر اُنھیں بچیوں کو تعلیم دِلوانے کی ترغیب دی جائے، تو یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ’’ لڑکی پڑھ لکھ کر کیا کرے گی، یہ کتنا بھی پڑھ لے، اسے گھر میں رہ کر کام کاج ہی تو کرنا ہے۔‘‘ حالاں کہ اگر دیکھا جائے تو یہی بچیاں آگے چل کر نسلوں کی مربّی اور معمار بنیں گی۔
اگر یہ تعلیم یافتہ ہیں، تو آئندہ نسلیں بھی تعلیم یافتہ اور مہذّب ہوں گی۔ اگر وہ ناخواندہ اور ضروری تربیت سے عاری ہوئیں، تو پھر نئی نسل کے مہذّب اور تعلیم یافتہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اِسی لیے خواتین کو وہ تمام سہولتیں اور حقوق ملنے چاہئیں، جن کے ذریعے وہ اپنی شخصیت کو کسی مضبوط پیڑ کی طرح قائم رکھ سکیں اور اس کے ذریعے پرورش پانے والی نسلیں مضبوط ٹہنیوں کی طرح خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
دنیا میں بہت سے انقلابات آئے، مذاہب وجود میں آئے اور بہت سی تہذیبیں نمودار ہوئیں، ان سب کے پھیلاؤ اور استحکام میں عورتوں نے مَردوں کا برابر ساتھ دیا۔اِسی طرح عورت، زندگی کی مختلف منازل اور راہوں میں مختلف حیثیتوں میں مَردوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ وہ ماں کی شکل میں بچّوں کی پہلی استاد ہوتی ہے، تو شوہر کی رفیق بن کر گھریلو ذمّے داریوں کا بوجھ اُٹھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عورت کی تعلیم و تربیت مرد کے مقابلے میں زیادہ اہم اور ضروری ہے۔‘‘
اِن دنوں مدرسے میں 800طالبات زیرِ تعلیم ہیں،جن میں سے 300مدرسے کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں، جن کے قیام وطعام، علاج معالجے اور بعض دیگر ضروری اخراجات مدرسے کے ذمّے ہیں اور طالبات سے کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا۔ طالبات کے لیے 32معلّمات پر مشتمل تدریسی عملہ موجود ہے۔جب کہ مدرسے کی جانب سے 6گائیں بھی رکھی گئی ہیں، جن کا دودھ، دہی اور لسّی طالبات کو دی جاتی ہے۔ 80ء کی دہائی میں بلوچستان کے مخصوص ماحول کے سبب خواتین کی تعلیم اور اُن کے لیے باقاعدہ ہاسٹل قائم کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ مدرسے کے بانی نے اِس ضمن میں سامنے آنے والی مشکلات کا ذکر اِن الفاظ میں کیا کہ’’ بلوچستان کا ماحول خواتین کے حوالے سے بالکل مختلف تھا۔
لوگ اپنے گھر کے قریب واقع اسکولز تک میں بچیوں کو نہیں بھیجتے تھے، لیکن ہم نے ایک طرف تو اُن کی ذہن سازی کی اور دوسری طرف ادارے کا نظام ایسا صاف وشفّاف رکھا کہ والدین اس پر اعتماد کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی والدین نے ہم سے کہا کہ’’ ہم اپنی بچیوں کو گھروں سے باہر نکلنے دیتے ہیں اور نہ ہی اُنھیں قریبی رشتے داروں کے گھر جانے کی اجازت ہے، لیکن آپ کے مدرسے کی اچھی شہرت کی وجہ سے کئی کئی سو کلو میٹر دُور سے اُنھیں مدرسۃالبنات بھیجتے ہیں۔‘‘
مدرسۃالبنات کو حکومتی سطح پر پرائمری اسکول کا درجہ دیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے 8 خواتین اساتذہ بھی فراہم کی گئی ہیں، جب کہ اس مدرسے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی سند محکمۂ تعلیم بلوچستان سے منظور شدہ ہے اور اسے معلّم القرآن اور عربک ٹیچر کی تعیّناتی کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔اگر تعلیمی نظام کی بات کریں، تو یہاں کا شعبۂ ناظرہ ایک سال پر مشتمل ہے، جس میں طالبات کو قرآنِ مجید تجوید کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے، جو مدرسے میں داخل ہونے والی ہر طالبہ کے لیے ضروری ہے۔شعبۂ حفظ کے دورانیے کا انحصار طالبات کی استعداد پر ہے۔ شعبہ فاضلہ قاریہ کا دورانیہ 5سال ہے، جس کے لیے پرائمری تک اسکول کی تعلیم اور ناظرۂ قرآن کا امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔
مدرسۃ البنات کا یہ ایک انتہائی اہم شعبہ ہے۔اس کے لیے تحریری امتحان ہوتا ہے اور طالبات کے حل کردہ پرچے مارکنگ کے لیے جیّد علماء کرام اور بڑے بڑے مدارس میں بھیجے جاتے ہیں۔ نیز، یہ پرچے مدرسے کے ریکارڈ میں بھی موجود رہتے ہیں،جنھیں کسی بھی وقت دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس شعبے میں فنونِ قرآن وحدیث کے ساتھ خوش خطی بھی سِکھائی جاتی ہے۔اِس مدرسے کی بلوچستان کے مختلف اضلاع کوئٹہ، پشین، ژوب، قلعہ سیف اﷲ، چمن، قلعہ عبداﷲ، لورالائی، مستونگ، نوشکی، دالبندین، قلّات، خاران، پنج گور، خضدار، مچھ، ڈھاڈر، سبّی اور نصیر آباد میں 50سے زائد برانچز قائم ہیں، جہاں سیکڑوں طالبات دینی و عصری علوم حاصل کر رہی ہیں۔
گزشتہ 37 برسوں میں مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات کی تعداد و خدمات اور مالی وسائل سے متعلق ڈاکٹر قاری عبدالرشید الازہری نے بتایا کہ’’ مدرسۃ البنات سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات کی’’ شال بندی‘‘ ہر سال دسمبر میں کی جاتی ہے۔ اب تک ہزاروں طالبات یہاں سے تعلیم مکمل کرچُکی ہیں،جن کا ریکارڈ مدرسے میں موجود ہے۔ امسال بھی شعبہ فاضلات، حافظات اور ناظرات سے400طالبات فارغ ہو رہی ہیں۔جب ہم نے مدرسہ قائم کیا تھا، تو یہ صوبے میں خواتین کی پہلی دینی درس گاہ تھی، لیکن بعدازاں دُور دراز اضلاع کی طالبات نے یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے علاقوں میں مدارس قائم کیے اور وہ وہاں دینی علوم کی ترویج میں مصروف ہیں۔
جہاں تک اخراجات کی بات ہے، تو مدرسۃالبنات کا کوئی مستقل ذریعۂ آمدن نہیں ہے اور نہ ہی ہم حکومت سے کسی نوعیت کی مالی امداد لیتے ہیں۔ مدرسے کے تمام اخراجات مخیّر افراد کے تعاون سے پورے کیے جاتے ہیں۔ مَیں نے آج تک کسی بھی حکومتی شخصیت سے مدرسے کے لیے کچھ نہیں لیا اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مدرسے کا انتظام بہترین انداز میں چل رہا ہے۔ہماری حکومتوں اور اداروں کو یہ بات دِل سے تسلیم کرنی چاہیے کہ دینی مدارس مُلک کی سب سے بڑی این جی اوز ہیں کہ جو ریاستی وسائل کے بغیر وہ خدمات انجام دے رہے ہیں، جو حقیقت میں ریاست کی ذمّے داری ہے۔
مخالف عناصر مدارس سے متعلق آئے روز منفی پراپیگنڈہ کرتے ہیں، جس میں کوئی صداقت نہیں۔ مدارس میں ہونے والے معمولی واقعات بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں۔ دین دشمن قوّتوں کی جانب سے آج مسجد، مدرسہ اور داڑھی کو نفرت کی علامت بنا کر پیش کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ درحقیقت، مدارس امن وسلامتی کے مراکز، اسلام کے قلعے اور دنیا میں پاکستان کے ایک نظریاتی مُلک ہونے کی پہچان ہیں۔ مدارس محدود وسائل کے باوجود مُلک میں اپنا بہترین کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کے فارغ التحصیل طلبہ آج مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘
ہندو لڑکی کے قبولِ اسلام کا واقعہ
ڈاکٹر قاری عبدالرشید الازہری نے یہ واقعہ سُنایا کہ’’ بلوچستان ہائی کورٹ نے چند برس قبل نصیر آباد سے تعلق رکھنے والی ایک نو مسلمہ لڑکی کو دارالامان سے مدرسۃالبنات کوئٹہ منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے۔یہ لڑکی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔اس کا والد کسی شخص کے گھر کی دیوار بنا رہا تھا کہ یہ لڑکی بھی کسی کام سے وہاں چلی گئی۔اُس نے دیکھا کہ گھر میں ایک خاتون قرآن مجید پڑھ رہی تھی، لڑکی نے قرآن مجید سُن کر اُس خاتون سے کہا کہ’’ مجھے بھی یہ پڑھاؤ۔‘‘ اس پر خاتون نے جواب دیا کہ’’ چوں کہ تم ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہو، اِس لیے قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔‘‘
لڑکی نے کہا’’ تو ٹھیک ہے، مَیں مسلمان ہونا چاہتی ہوں تاکہ قرآن مجید پڑھ سکوں، یہ واقعی اللہ کا کلام ہے اور مَیں اسے سُن کر سکون محسوس کر رہی ہوں۔‘‘ یوں لڑکی نے کلمۂ شہادت پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریمﷺ کی رسالت کا اقرار کرلیا۔ جب لڑکی کے گھر والوں کو اِس بات کا علم ہوا، تو اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے شدید احتجاج کیا کہ’’ لڑکی کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہے۔‘‘ معاملہ بلوچستان ہائی کورٹ تک پہنچا، جہاں لڑکی نے اپنے بیان میں کہا کہ’’ مَیں اپنی مرضی اور خوشی سے مسلمان ہوئی ہوں، مجھ پر کوئی جبر نہیں تھا، اب مَیں قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہتی ہوں، میرے لیے اس کا بندوبست کیا جائے۔‘‘
اِس پر عدالت نے مجھ سے رابطہ کیا اور نو مسلمہ لڑکی مدرسۃالبنات کو سونپ دی، جہاں وہ دینی علوم پڑھ رہی ہے۔‘‘اِس موقعے پر زیرِ تعلیم نومسلمہ لڑکی نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’ مَیں اسلام قبول کرکے بہت خوش ہوں۔ مجھے اسلامی تعلیمات نے بہت متاثر کیا ہے اور میرا ارادہ ہے کہ قرآن پاک سیکھ کر اوروں کو بھی سکھاؤں۔اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں نے میری بے حد حوصلہ افزائی کی۔ مدرسے کی اساتذہ اور انتظامیہ نے میرے ساتھ ایثار اور ہم دردی کا ایسا بے مثال رویّہ اختیار کیا، جسے مَیں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔‘‘