• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکّہ، مدینہ کے ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرا: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مسیح الدَجّال مشرق کی جانب سے نمودار ہوگا۔ وہ مدینے میں داخل ہونے کے لیے اُحد پہاڑ کے پیچھے اُترے گا۔ پھر فرشتے اس کا رُخ شام کی طرف پھیر دیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، 3351)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدینے پر دَجّال کا رُعب بھی نہیں پڑے گا۔ اُس دَور میں مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے ہوں گے۔‘‘ (صحیح بخاری، 1879)۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدینے کے راستوں پر فرشتے ہیں۔ اس میں طاعون آسکتا ہے اور نہ دَجّال۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث،1880)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’کوئی شہر ایسا نہیں ملے گا، جسے دَجّال نے پامال نہ کردیا ہو، سوائے مکّہ اور مدینہ کے۔ اُن کے ہر راستے پر صف بستہ فرشتے کھڑے ہوں گے، جو اُن کی حفاظت کریں گے۔ پھر مدینے کی سرزمین تین مرتبہ کانپے گی، جس کے بعد ایک ایک کافر اور منافق کو اللہ تعالیٰ وہاں سے باہر کردے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، 1881)۔صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دَجّال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں یہ بھی فرمایا تھا کہ دَجّال مدینے کی ایک کھاری شور زمین تک پہنچے گا۔ اس پر مدینے میں داخلہ تو حرام ہوگا۔

مدینے کے بزرگ ترین لوگوں میں سے ایک بہترین نیک شخص مدینے سے باہر اُس سے ملنے آئے گا۔ وہ نیک بزرگ شخص کہے گا کہ ’’مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تُو وہی دَجّال ہے، جس کے متعلق ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطلاع دی تھی۔‘‘ دَجّال کہے گا کہ ’’کیا مَیں اِسے قتل کرکے پھر زندہ کر ڈالوں، تو تم لوگوں کو میرے معاملے میں کوئی شبہ رہ جائے گا؟‘‘ اس کے حواری کہیں گے کہ ’’نہیں۔‘‘ چناں چہ دَجّال اُنھیں قتل کرکے پھر زندہ کردے گا۔ جب دَجّال اُنھیں زندہ کردے گا، تو وہ بندہ کہے گا ’’بخدا اب تو مجھ کو پورا حال معلوم ہوگیا ہے کہ تُو ہی دَجّال ہے۔‘‘ دَجّال کہے گا کہ ’’لائو اسے پھر قتل کر دوں۔‘‘ لیکن اس مرتبہ وہ قابو نہ پاسکے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، 1882)۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’دَجّال مشرق کی ایک زمین سے نکلے گا، اُسے خراسان کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اُس کی اتباع کریں گے اور اُن کے چہرے ایسے ہوں گے، جیسے تہہ دار ڈھال ہوتی ہے۔‘‘ (سنن ابو داؤد، 4072)۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں فتنہ دَجّال اپنے انجام کو پہنچا: حضرت ابو امامہ باہلیؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے میں دَجّال سے متعلق تفصیل سے گفتگو میں فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے جب سے اولادِ آدمؑ کو پیدا فرمایا ہے، زمین میں دَجّال سے بڑا فتنہ ظاہر نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا، اس نے اپنی اُمت کو دَجّال سے ضرور ڈرایا۔ مَیں آخری نبیؐ ہوں اور تم آخری اُمّت ہو۔ اگر وہ میری موجودگی میں ظاہر ہوا، تو تم سے پہلے میں اس کا مقابلہ کروں گا اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا، تو ہر شخص اپنا دفاع خود کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کا مددگار ہے، وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راستے پر ظاہر ہوگا اور دائیں بائیں فساد پھیلائے گا۔ اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا، مَیں تمہیں ایسی علامات بتائوں گا، جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائیں۔ 

ابتدا میں دَجّال کہے گا کہ میں نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ پھر وہ دُوسرا دعویٰ کرے گا کہ مَیں تمہارا رَبّ ہوں۔ وہ کانا ہے، اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر کافر لکھا ہوا ہوگا، جسے ہر مومن شخص پڑھ لے گا۔ اس کے ساتھ اس کی مصنوعی جنّت اور دوزخ ہوگی۔ اس کا جہنّم حقیقت میں جنّت اور جنّت اصل میں جہنم ہوگی۔ جو شخص اللہ سے فریاد اور سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے گا، اس کے لیے وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جائے گی۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ ہوگئی تھی۔ حضرت اُمّ شریک رضی اللہ عنہانے عرض کیا، ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس وقت اہلِ عرب کہاں ہوں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’اُس دن وہ کم ہوں گے اور تقریباً سبھی (عربی) بیت المقدّس میں ہوں گے۔ 

اُن کا امام ایک نیک آدمی ہوگا۔‘‘ (علمائے کرام فرماتے ہیں کہ وہ حضرت مہدی علیہ السلام ہوں گے) اُن کا امام اُنھیں صُبح کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے گا کہ اچانک اسی صُبح حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام زمین پر اُتریں گے۔ اُن کا امام اُلٹے پائوں پیچھے ہٹے گا، تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو نماز پڑھائیں، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس کے کاندھوں کے درمیان (کمر پر) ہاتھ رکھ کر اُس سے فرمائیں گے۔ ’’آپ ہی نماز پڑھائیں، کیوں کہ اقامت آپ کے لیے کہی گئی ہے۔‘‘ 

چناں چہ اُن کا امام اُنھیں نماز پڑھائے گا۔ جب وہ فارغ ہوگا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے۔ ’’دروازہ کھولو۔‘‘ دروازہ کھولا جائے گا، تو آگے دَجّال موجود ہوگا۔ اس کے ساتھ ستّر ہزار یہودی ہوں گے۔ ہر ایک کے پاس مزیّن تلوار اور سبز چادر ہوگی۔ جب دَجّال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا، تو اس طرح کرنے لگے گا، جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے، چناں چہ وہ فرار ہوجائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے، ’’تُو مجھ سے بھاگ کر میری ضرب سے بچ نہیں سکتا۔‘‘ پھر آپ اسے لُد شہر کے مشرقی دروازے پر جا پکڑیں گے اور قتل کردیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست دے دے گا اور یہودیوں کے درخت، غرقد کے علاوہ اپنی پیدا کردہ ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرمادے گا، پھر یہودی جس چیز کی آڑ میں بھی چُھپے گا، وہ چیز آواز لگائے گی ’’اے اللہ کے مسلمان بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چُھپا ہوا ہے، آکر اسے قتل کردے۔‘‘ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ ’’عیسیٰ ابنِ مریم علیہما السلام میری اُمّت میں انصاف کرنے والے جج اور عادل امام ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو ذبح کردیں گے، جزیہ ختم کردیں گے۔ صدقہ لینا بند کر دیں گے، کسی بکری یا اُونٹ کی زکوٰۃ نہیں لی جائے گی۔ آپس کی ناراضی اور دُشمنی ختم ہوجائے گی، زہریلے جانور کا زہر نہیں رہے گا، حتیٰ کہ اگر بچّہ سانپ کے مُنہ میں ہاتھ ڈال دے گا، تو سانپ اُسے نقصان نہیں پہنچائے گا اور بچّی شیر کو بھگا دے گی، وہ اُسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔ بھیڑیا، بکریوں میں ایسے ہوگا، جیسے ریوڑ میں کتّا ہوتا ہے۔ 

زمین امن سے اس طرح بھر جائے گی، جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے۔ سب لوگ متحد ہوں گے۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ جنگ نابود ہوجائے گی، قریش سے حکومت چھن جائے گی۔ زمین، چاندی کے تھال کی طرح ہوجائے گی، اس کی پیداوار حضرت آدم ؑکے زمانے کی پیداوار کی طرح ہوجائے گی۔ انگور کا ایک خوشہ یا ایک انار کئی افراد کے لیے کافی ہوگا۔ بیل زیادہ مال کے بدلے اور گھوڑا چند درہم میں مل جائے گا۔‘‘صحابہ ؓ نے عرض کیا،’’ اللہ کے رسولﷺ! گھوڑا سستا کیوں ہوجائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا،’’اس پر جنگ کے لیے سواری نہیں کی جائے گی۔‘‘ انھوں نے کہا، ’’بیل کیوں منہگا ہوگا؟‘‘ فرمایا، ’’ساری زمین پر کاشت کاری کی جائے گی۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ، 4077)۔

فتنۂ دَجّال سے پناہ مانگنے کی دُعا: حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس مسلمان نے سورۂ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کرلیں۔ وہ دَجّال کے فتنے سے محفوظ کر لیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم،1883)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جب تم تشہد سے فارغ ہو جائو، تو چار چیزوں سے پناہ مانگو، جہنّم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کی آزمائش سے اور مسیح دَجّال کے شر سے۔‘‘ (صحیح مسلم، 1326)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نمازوں میں دَجّال کے فتنے سے پناہ مانگتے ہوئے سُنا۔‘‘ (صحیح مسلم،1323، صحیح بخاری، 833، 7129)۔ 

اُمُّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرمایا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ !مَیں قبر کے عذاب سے، دوزخ کے عذاب سے، زندگی اور موت کے عذاب سے اور کانے دَجّال کی بلا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، 832، 833، 1377)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آخری زمانے میں (ایسے) دَجّال (فریب کار) کذاب ہوں گے، جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے، جو تم نے سُنی ہوں گی اور نہ تمہارے آبائو اَجداد نے۔ تم ان سے دور رہنا (کہیں) وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔‘‘ (صحیح مسلم، 16)۔

مملکت ِپاکستان دَجّالی قوّتوں کے نشانے پر: دَجّال کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ اس پر احادیث کی تعداد430 ہے۔ دَجّال کے فقیدالمثال استقبال کی تیاریوں کے سلسلے میں یہودی دَجّالی قوتوں کے ہوش رُبا اقدامات کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں۔ تمام تر اِنسانی اور شیطانی وسائل کے ساتھ دَجّال کا نزول اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندۂ مومن کا سخت امتحان اوریہود و نصاریٰ کی آخری اُمیدہے، پوری دُنیا میں یہودی، بادشاہت کے خواب کی تعبیر کے لیے دَجّالی یہودی قوتیں چودہ سو برس سے برسرپیکار ہیں۔ صلیبی جنگوں میں ذلت آمیز اور شرم ناک شکست نے یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کو مزید جِلا بخشی، انھیں اندازہ ہوگیا کہ تلوار کی نوک مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کو ختم نہیں کرسکتی، چناں چہ شیطانی ہتھکنڈے اور دَجّالی داؤ پیچ آزمانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے بہت جلد حیران کن نتائج سامنے آئے۔ 

سازش، منافقت، جھوٹ، فریب، دھوکا، بدعہدی، وہ دَجّالی ہتھیار تھے، جنہوں نے بہت جلد اُمتِ مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جیسا کہ دُنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست اور تین برّاعظموں پر بادشاہت کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنا دَجّالی فتنے کی بہت بڑی کام یابی تھی۔پھر مسلم ممالک میں کرپٹ، نااہل بدعنوان اور لالچی حکم رانوں کے اقتدار نے کام مزید آسان کردیا۔ مال و متاع اور جاہ و حشم کی حرص و ہوس نے ان حکم رانوں کو یہودو نصاریٰ کا غلام بنادیا ہے۔ 

مسلم ممالک کو آپس میں لڑانا، اُن کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا، سیاسی اور مسلکی اختلافات کو دُشمنیوں میں تبدیل کرکے اُمت میں انتشار پیدا کرنا، مسلمانوں کے مالی، مادّی اور اِنسانی وسائل پر شب خون مارنا، معاشی معاملات کو سُود دَر سُود گردنوں تک جکڑ دینا، بااثر طبقے کی بڑی تعداد کو ڈالر کی چمک کے عوض خرید لینا، نوجوان نسل کو اچھی تعلیم، بہتر روزگار، پُرامن ماحول اور پُرتعیش زندگی کا تصوّر دے کر ان کی سوچ، ذہن اور صلاحیتوں کو اپنا غلام بنالینا، مسلم ممالک میں امن و امان کی فضا اس حد تک خراب کردینا کہ باصلاحیت اور اہل افراد خود ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور یہودی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں مسلمانوں کے مالیاتی، معاشی، سیاسی، سماجی، تجارتی اور کاروباری نظام کو گروی رکھ دینا۔ نیز، الیکٹرانک میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ذریعے فحاشی و عریانیت کےہتھکنڈوں سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدّن اور دینی اقدار کو تباہ و برباد کردینا، درحقیقت ان دجّالی قوّتوں ہی کا شاخسانہ ہے۔ (ختم شُد)