پاکستان کے سارے لوگوں، حکومت اور معاشرے کو یہ ہزیمت مبارک ہو کہ اب پاکستان کے نوجوان گلے میں اسکولوں کے بستے ڈالے، عورتوں کے پرس اور مردوں کے بٹوے، بڑی مہارت کے ساتھ چھین رہے ہیں۔ اس میں قصور گھر کی تربیت کا، نصاب کا، مسجدوں اور ٹی وی پہ دیئے گئے درس کا کہ حکومتوں کا، کہ کہنا کچھ اور کرنا کچھ۔ میں بہت دلسوزی، دکھ اور اذیت کے ساتھ اپنے محنتی، پرخلوص اور انتھک کام کرنیوالے وزیراعظم سے درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے گزشتہ پندرہ دنوں میں کوئی پندرہ پروجیکٹس کا آغاز اور افتتاح کیا، حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی وزارت عظمیٰ اگلے پندرہ دن تک ہے۔ پاکستانی قوم کیلئے آنیوالے منصوبوں کی تفصیل بتاتے ہوئے آپ نے غیر ملکی بزنس مین اور ماہرینِ مالیات کو پاکستان آنے کی د عوت دی۔ آپ نے زراعت اور بلڈرز کو ٹیکس سے استثنا دیا، آپ نے پاکستانیوں کے گھروں میں جلتے ہوئےایک بلب پر بھی بجلی کی شرح اتنی بڑھانے کی اجازت دی کہ اب پڑھنے والے بچے اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں توفیق ہوئی تو پڑھ لیا کریں گے۔آپ زرعی پیداوار کو نئے طریقوں اور زمین کی روئیدگی کو بہتر بنانے کیلئے، پاکستان میں پانچ زرعی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والوں اور پڑھنے والوں کو شامل کرکے منصوبے کا اعلان خود نہ کرتے، زیرتعلیم زرعی یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات کے علاوہ وہ لوگ جو باہر سے زرعی تعلیم ڈاکٹریٹ تک حاصل کرکے آئے ہیں، ان کی رائے اور مشوروں کو بھی شامل کرتے اس کے بعد، آپ کی جذباتی گفتگو کو امید کی فصل بھی مل جاتی۔
آپ نے خواتین کیلئے بھی مستقبل کی منصوبہ بندی کا تذکرہ کیا۔ مگر لوکل گورنمنٹ سے لے کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں رشتہ دار خواتین کو سامنے لانے کی روش کی مخالفت کیوں نہ کی۔ حنا کھر کی طرح کی تعلیم یافتہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ حکومتی ایوانوں میں لانے کے منصوبوں کا مجھ جیسی بزرگ خواتین کب تک انتظار کریں گی۔
آپ اسلامی شریعت کونسل کو بھی جدید تقاضوں سے آگاہ کرنے کی ترغیب دیتے تو وہ ٹرانس جینڈر لوگوں کو کم نہ گردانتے،سیاست اور حکومت میں کرپشن ختم کرنے کے ایسے منصوبوں کو قانونی حیثیت دینے کیلئے تجویز کرتے کہ الیکشن لڑنے والے امارت کے بل بوتے پر سامنے نہ آئیں۔ آپ نے گزشتہ چیف جسٹس کے بیٹے کی ٹیلی فونک گفتگو تو سنی ہوگی۔ لین دین کے لفافوں کو بند کرنے کا بھی جاتے جاتے کوئی قانون بنا جائیں۔
آپ نے ہنرمند بنانےکیلئے نوجوانوں کیلئے یونیورسٹی تک کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اگر اسکولوں میں بھی جاپان کی طرز پر کھلونے بنانے کے طریقوں، اسی طرح کچن گارڈن اور صحت مند کھانے اور حفظان صحت کے اصولوں کو باقاعدہ عملی تربیت دینے اور اساتذہ کو ڈنڈا پیر ترک کر دینے کی نفسیات کو تھوڑے سے مذاق کے ساتھ بتا دیتے تو اسکولوں کے بستوں کے ساتھ بچوں کے ڈاکے ڈالنے پہ ہم سب آزردہ نہ ہوتے۔
ایک بات جو میری سمجھ میں آگئی۔ اس کے باوجود آپ سے پوچھ رہی ہوں کہ ان پندرہ دنوں میں کوئی اتنے ہی بلین ڈالرز کے منصوبوں کا آپ نے اعلان کیا اور آپ کی ہاں میں ہاں ملانے والے بھی مل گئے۔ ادھر آپ سے شہ پاکر پنجاب میں سارے افسروں کیلئے گاڑیاں منگوانے کا فیاضانہ اعلان کیاگیا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’گھر میں نہیں دانے، اماں چلی بھنانے‘‘۔ آپ نے بلاول کو سنا، وہ لاکھوں مکان کی چابیاں تقسیم کررہا ہے۔
ابھی میرے بیٹے کا اسپین سے فون آیا۔ اس نے بتایا کہ آج وہاں الیکشن ہیں، میں نے اس سے پوچھا ’’تمہارے گھر کتنے امیدوار، خواتین و حضرات آئے، کیا تمہیں لینے کوئی گاڑی آ رہی ہے، کیا تمہارا کھانا، آج پولنگ کی جگہ پر ہے، میں اس سے سوال کرتی رہی۔ وہ ہنس کے ناں ناں کرتا رہا۔ پھر اسے یاد آیا کہ جب وہ پڑھ رہا تھا تو ایک دفعہ اس کی زندگی میں الیکشن ہوئے تھے۔ وہ بھٹو صاحب کا پہلا الیکشن تھا، بھٹو صاحب کو کوئی تیس سیٹیں ملنے کی توقع تھی۔ جب سو کے قریب سیٹیں مل گئیں تو وہ بھی پریشان ہوگئے بہت سے غریب بھی منتخب ہوگئے تھے۔ اور اب ! پاکستان میں الیکشن میں عوام کو ووٹ ڈالنے ہیں تو پھر یہ دبئی میں ہمارے سیاسی رہنما کس بات پہ روز میٹنگ کر رہے ہیں۔ یہ کیوں عوام کو تیار نہیں کر رہے ہیں کہ ایک طرف نعرے ہیں کہ ’’نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم‘‘ دوسری طرف نعرے ہیں ’’بلاول اگلا وزیراعظم‘‘۔ آپ آخر لوگوں کو کیوں غصہ دلا رہے ہیں۔ عوام نے آپ سب کو بہت بھگتا ہے، اس وقت موسم برسات کے ساتھ بری ہونے کا موسم چل رہا ہے، جن سرکاری افسروں نے آپ کو مصاحبت دی، وہ تو اب تک پھر پندرہ ماہ سے آپ کے ساتھ ہیں۔ بس رؤف حسن کا بھائی بہت دانشمند ہے کہ اس نے نگران وزیراعظم بننے کی بات کو ٹالتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگلی حکومت میں دیکھتے ہیں کون بادشاہ بنے گا۔ جہاں مریم اورنگزیب ایک طرف پریس کلب جاکر پھولوں کی پتیاں خود نچھاور کرواتی ہیں، وہیں پیمرا کے قوانین میں ردوبدل کرکے صحافیوں کو تاؤ د لا رہی ہیں۔ جب آپ آئینی اصلاحات کر رہے ہیں، سرکاری ملازمین کے قوانین کی طرح، یہاں بھی بندش ہو کہ 60سال کی عمر اور اعمال کے بعد، سیاستدان بھی، کمائی ہوئی دولت اپنے خاندان پہ صرف کرکے خوش ٹھہریں۔ اور یہ اصلاح بھی کی جائے کہ یہ خاندانی، موروثی سیاست نہیں چلے گی۔ یہ بھی قانونی اصلاح کی جائے کہ دو چار مربعے والے تو انتخابات لڑ سکتے ہیں، بڑے جاگیردار اور زمیندار، اپنے خاندانوں میں اگر کوئی نوجوان پڑھا لکھا ہو تو اسے امیدواروں میں شمار کرانے کو آگے کریں۔ زراعت کو جاگیر داروں کے حوالے کرکے، ایوب خان کی طرح ا سکو گرین انقلاب مت کہیں۔ یہ اصرار بھی مت کریں کہ پرانی مردم شماری پر اس دفعہ کے الیکشن ہونے دیں۔ یہ جو دو کروڑ آبادی میں ایک کروڑ نوجوان ہیں، وہ بھی کیا غیر ممالک کی جانب جانے کا سوچ کر، کشتیوں میں ڈوب جائیں۔
آپ کے پاس جو پندرہ دن ہیں، ان کو صدیوں برابر سمجھ کر کام کریں۔ اللہ نے اپنی کتاب قرآن شریف میں لکھا ہے کہ قیامت کل بھی آسکتی ہے اور یہ کل یہ ایک دن بھی سو سال تک چل سکتا ہے۔ سیاست دیوانگی نہیں۔ ان وعدوں پر بہت چلے کہ پاکستان معدنیات سے مالا مال ہے۔ سمندر سے تیل نکالنے کے جھوٹے منصوبے بہت ہو چکے، آگے آنے کیلئے آپ بھی اپنی پوشیدہ جائیدادوں کا اعلان کریں۔ پھر ممبرشپ فارم بھریں۔