• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالی وڈ میں کھلاڑی کے نام سے مختلف فلموں کی ایک سیریز بنی تھی جیسے خطروں کا کھلاڑی ، میں کھلاڑی تو اناڑی وغیرہ وغیرہ جن میں اکشے کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ ان مذکورہ بالا فلموں میں ہیرو اپنے اپنے کھیل کا ماہر کھلاڑی ہوتا ہے اس لئے فلم کے اختتام پر وہ اپنے ہر مشن میں کامیاب رہتا ہے ۔ لیکن پاکستان میں حکومتی فلم بنانے اور نت نئے تجربے کرنے والے ہدایت کاروں نے حسبِ عادت ایک عجیب تجربہ کیا اور ایک ایسے شخص کو جو کسی اور کھیل کا کھلاڑی ، جبکہ سیاست اور ملکی و بین الاقوامی امور کا ’’ اناڑی ‘‘ تھا، اسے برسوں ایک جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے دیوتا اور مسیحا بنا کر عوام پر مسلّط کر دیا ۔ اور پھر وہ پونے چار سال تک اس ملک اور عوام کی قسمت سے کھیلتا رہا ۔ وہ جو کہتا تھا کہ اسے اقتدار کا لالچ نہیں اسے خدا نے سب کچھ عطا کیا ہے۔ لیکن ہوسِ اقتدار اور عقلِ کل کے جنون میں مبتلا اس شخص نے ہماری سیاسی تاریخ میں جھوٹ در جھوٹ بولنے ، ہر روز نیا یو ٹرن لینے ، مخالفین کے خلاف بد زبانی اور مالی و اخلاقی کرپشن کے ایسے ریکارڈ قائم کئے جو حیران کن ہیں اور ایسے ایسے ہوش رُبا انکشافات سامنے آرہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اس کھلاڑی نما اناڑی نے ہماری معیشت ، خارجہ پالیسی ، معاشرتی اور سیاسی اخلاقیات کے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلا ہے اور ہماری تاریخ کے صرف پونے چار سال میں سب سے زیادہ قرضہ لینے والے نے وہ اکیس ہزار ارب روپے کہاں خرچ کئے کیونکہ اس دوران ملک میں ایک بھی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کیا گیا ،اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو راز دارانہ لہجے میں حکم دینےوالے خان ِ اعظم نے کہا ’’ امریکی سائفر سے بس کھیلنا ہے، امریکہ کا نام نہیں لینا،یہ بات عوام کو سپون فیڈ کرنی ہے کہ میری حکومت گرانے میں امریکہ ملّوث ہے ۔ ‘‘ پھر اس کے بعد حضرت نے جتنے بیانات تبدیل کئے وہ بھی ایک ریکارڈ ہے جھوٹ کے بارے میں ایک مشہور محاورہ یوں ہے کہ ’’ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اس لئے جھوٹے آدمی کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا۔ اور جب جھوٹے آدمی کو یہ یقین ہو کہ اس کے جال میں پھنسے ہوئے ’’ پجاری ‘‘ اس کے ہر جھوٹ کو سچ ماننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ تو نہ صرف جھوٹ بولنے والے کو مزید جھوٹ کی شہ ملتی ہے بلکہ یہی جھوٹ بالآخر اس کے گلے کا پھندہ بن جاتے ہیں‘‘اس کھلاڑی کے کھیل کا آغاز 2011میں ہوا جب اس وقت کے خداو ندانِ جاہ و حشم نے اپنے سے بھی بڑے خدا وندِ فخر و غرور کو یہ سوچ کر گود لے لیا کہ کہیں پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہ ہو جائے کیونکہ ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے برسوں کی ریاضت ، تجربے اور غلطیوں کے بعدمیثاقِ جمہوریت کے ذیعے یہ طے کیا تھا کہ وہ تیسری قوّت کو سیاسی مداخلت سے باز رکھیں گے ۔ گواس ’’ عہد ‘‘ پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنی معیاد پوری کی۔ اور پہلی مرتبہ ہارنے والی پارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری نے مسکراتے ہوئے اقتدار اپنی مخالف پارٹی کو دے دیا۔ تیسری قوت نے یہ دیکھ کر اپنے نئے مہرے کو میدان میں اتار نے کا فیصلہ کیا جس کا واحد ایجنڈا تیسری قوت کا ’’سیاست ، جمہوریت اور سیاستدان مخالف‘‘ ایجنڈا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان کہلوانے کے باوجود اس نے تمام مخالف سیاستدانوں کو ’’ اچھوت‘‘ قرار دے دیا۔ وہ تو اسکی اندونِ ملک اور بیرونِ ملک انتہائی ناقص کارکردگی تھی کہ لانے والے بھی پریشان ہو گئے۔اور بقول ڈاکٹر فردوس عاشق انہوں نے دوسرے سال ہی اس سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس پر کورونا کی وبا کی وجہ سے عمل درآمد نہ ہو سکا۔

عمران کی حقیقی سیاست کا آغاز ہی جھوٹ ، نفرت اور تقسیم کی پالیسی کے تحت ہوا جو اس کے شرانگیز دھرنے کے دوران پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کی بلڈنگوں پر دھاوا بولنے اور چین کے صدر کے دورے کو منسوخ کرانے پر منتج ہوا۔ پھر اس کے 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے ، گورنر ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے اور قرضہ مانگنے کی بجائے خود کشی کرنے جیسے ڈراموں کا آغاز ہوا۔ لیکن ان میں سے ایک وعدہ بھی وفانہ ہوا۔ بلکہ اس نے آئی ایم ایف سے جن شرائط پر قرض حاصل کیا اور بعد میں اسے توڑ دیا۔ اس کی ہلاکت انگیزی کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس کے لاتعداد جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ ساری دنیا نے اس وقت دیکھا کہ کس طرح ویل چیئر پرآنے والا خان ، گرفتاری کے بعد اٹھ کر چلنے لگا اور پھر اس نے بعد میں کبھی ویل چیئر استعمال نہیں کی، آج اس کے پرنسپل سیکریٹری سے لیکر تمام قریبی رازدان اسکی دیانت داری کے جو پول کھول رہے ہیں وہ حیران کن ہیں۔ وہ کب تک جھوٹ کے نت نئے کھیل کھیلتا رہے گا کیونکہ پاکستان اب کسی نئی مہم جوئی اور جھوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین