موجودہ دور میں جب عقل پر ذاتی انتقام کا تالا لگا ہے، تو مشکل دکھائی دیتا ہے کہ اپنی سمت بڑھنے والی بے پناہ تباہی اور بربادی کی لہر کو ہم روک پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کو مہیب بحران کی کھائی میں گرتا دیکھ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خرابی کا پھیلتا ہوا دائرہ ریاستی مشینری پر ناقابل تصور دبائو کا باعث بن رہا ہے۔
ان حالات میں اٹھنے والا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم اس نہج تک کیسے پہنچے؟ نیز کیا اس دلدل سے نکلنے کا اب بھی کوئی راستہ باقی ہے؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو وسیع تر مکالمے کے ذریعے قابل عمل اور ناقابل عمل چیزوں کو الگ کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔ لیکن اگر ہم پہلے ہی واپسی کے تمام راستے بند کر چکے تو نفرت کی حائل ہونے والی اس خلیج کو پُر کرنے اور اس کی شدت کو کم کرنے کیلئے کون سے طریقے اور اقدامات ہمارے سامنے دست یاب ہیں؟
ریاستوں کی بنیاد ان ستونوں پر ہوتی ہے جو اختیارات کی سہ جہتی تقسیم کی نمائندگی کرتے ہیں:مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو۔ آئین میں اُن کے کردار کی وضاحت کر دی گئی ہے جس کے مطابق حکومت اور اس کے معاون ادارے کام کرتے ہیں۔ تاہم اگر ان میں سے کوئی ادارہ اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر من مانی کرے یا کسی دبائو کا شکار ہو جائے تو ریاست کی نائو ڈگمگا جاتی ہے۔ ایسی ریاست کمزور ہو کر اندرونی اور بیرونی مداخلت کا نشانہ بن جاتی ہے۔
کئی ایک عوامل کی وجہ سے اس وقت حکومت قانونی جواز سے محروم اسی موڑ پر کھڑی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی اسٹیک ہولڈرز کیلئے اس کی فعالیت قابل قبول نہیں۔ اس بنیادی اور لازمی عنصر کی غیر موجودگی میں یہ حکمرانی کا جواز نہیں رکھتی۔ آئی ایم ایف نے اسے مختصر مدت کیلئے مالیاتی پیکیج دینے کیلئےجو طریق کار اختیار کیا، وہ اس کی ساکھ اور صلاحیت پر عدم اعتماد کا کلی مظہر تھا۔ پیکیج کو حتمی شکل دینے سے پہلے اس نے عمران خان کی منظوری حاصل کی جو ملک کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت کے قائد ہیں، اور پوری ریاستی مشینری اُنھیں بےبنیاد اور من گھڑت مقدمات میں ملوث کر کے سزا دینے پر تلی ہوئی ہے۔
ایک طرف آئی ایم ایف سے ڈیل کرتے ہوئے حکومت وقت کی کمزوری بے نقاب ہو گئی تو دوسری طرف اس نے تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ پر مہر ثبت کر دی۔ اور یہ وہ جماعت ہے جو حالیہ دنوں ریاست کے غیظ وغضب کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق چلنے والے کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایسے واقعات بمشکل ہی کبھی سننے کو ملتے ہیں۔ اگر خوف محسوس ہو کہ حکومت حق حکمرانی کھو رہی ہے تو تازہ مینڈیٹ کیلئے عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ لیکن سیاسی حریف کو کچلنے کیلئے فسطائی حربوں کا استعمال کسی بھی حقیقی جمہوری بندوبست کیلئے اجنبی ہے اور آج کل پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اس طرح کے دیگر ناگوار عوامل اور موروثی اور آمرانہ رجحان کی لت نے ریاست کو غیر فعال کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم ایک ادھوری اسمبلی اور خود چنے ہوئے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ میدان میں اترے جس نے اگلے الیکشن میں اس پارٹی کے ایک رکن کے طور پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا جس کا بدعنوان قائد طاقت ور حلقوں کے ناجائز مطالبات کو بجا لاتاہے۔ اس دوران عدلیہ فیصلے کرنے سے خائف ہے کیونکہ جانتی ہے کہ ریاستی نظام انھیں نافذ نہیں کرے گا۔ لہٰذا، ہمارے پاس ریاست کا ایک خالی ڈھانچہ باقی ہے جس کی سکت دم توڑ چکی۔
اب یہ ریاست کے اندرونی اور بیرونی مفادات کی خدمت اور فروغ کا معاملہ نہیں رہا۔ پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ کم از کم بدعنوان حکمران اشرافیہ کے مفاد کو کس طرح محفوظ بنایا جائے اور اقتدار کی راہداریوں میں ان کی بلا روک ٹوک من مانیوں کو یقینی بنانےکیلئے کیا اقدامات کئے جائیں۔ چاہے اس کیلئے نظام کو مزید بگاڑنا پڑے، اگر مزید بگاڑ کی کچھ گنجائش باقی رہ گئی ہو۔ ریاستی جبر اور فسطائیت اپوزیشن کے خاتمے پر تلی ہوئی ہے۔ ہماری قومی زندگی میں ایسی چالبازی اور بدعنوانی کسی اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن جب یقین ہو جائے کہ وہ ریاست کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اسے اندرونی اور بیرونی سازشوں کے مقابلے میں کمزور بنا رہے ہیں، تو پھر اسے ان تباہ کن اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے مزاحمت ضروری ہو جاتی ہے۔ پاکستان آج اسی موڑ پر کھڑا ہے۔ یہاں سے یہ جو رخ اختیار کرتا ہے وہ اس کے مستقبل کا تعین کرے گا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست اور اس کی قیادت کتنے مؤثر طریقے سے ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو اس کے مختصر اور طویل مدتی فائدے میں ہوں۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں بحران کا بھنور ہے۔ مذموم عزائم کو بروئے کار لاتے ہوئے، ہم نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے سامنے ریاست کے مفادات پر سمجھوتا کر لیا۔ اب وہ آسانی سے ہمارا گلا نہیں چھوڑیں گے۔ بدعنوان قیادت جو، دھوکا دہی کے ذرائع استعمال کر کے بار بار اقتدار میں آ جاتی ہے، کے پاس نہ تو قوم کے رہنما بننے کی صلاحیت اور کردار تھا اور نہ ہی ترقی اور نجات کے پروگرام کے ساتھ رہنمائی کرنے کی صلاحیت۔ ان کے پیش نظر صرف اپنا اور ساتھی سازشیوں کا مفاد تھا۔ یہ چالاکیاں ریاست کیلئے بہت مہنگی ثابت ہوئی ہیں کیوں ان کی وجہ سے ریاست کا وجود کھوکھلا اور مقصد دھندلا گیا ہے۔ یہ ایک طوفانی جھکڑ کی زد میں آئے ہوئے ایک خزاں رسیدہ زرد پتے کی طرح لرزاں ہے ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرض کتنا مہلک ہے۔ ادھر اُدھر کی جانے والی تھوڑی بہت تبدیلیوں سے اب کام نہیں چلے گا۔ سطحی میک اپ کا وقت گزر چکا۔ اس وقت نظام کی مکمل صفائی اور دھلائی کی ضرورت ہے تاکہ اس کی تمام خرابیاں جڑ سے اکھاڑی جا سکیں اور اسے عوام، نہ کہ حکمراں اشرافیہ، کے مفاد سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اس کیلئے شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد درکار ہے تاکہ ایسے رہنما سامنے آسکیں جن پر عوام کا اعتماد ہے، اور جو ان کے مستقبل کی راہ ہموار کریں۔ اس کے علاوہ کوئی اور نسخہ کام نہیں دے گا۔