پہلے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور اب وزیر اعظم کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیزنے الزام لگایاہے کہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت کے دورمیں امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر اور میموگیٹ کے مرکزی کردار حسین حقانی پاکستان کے مفاد کے خلاف امریکا میں کام کر رہے ہیں اور لابنگ میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اس پر حسین حقانی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ کسی بھی قسم کی لابنگ میں ملوث نہیں اور یہ کہ کبھی بھی انہوں نے پاکستانی مفادات کے خلاف لابنگ نہیں کی۔حسین حقانی نے کہا کہ اُن پر الزام تراشی کی بجائے پاکستان کو اپنی ناکام پالیسیوں کو تسلیم کرناچاہیے۔ حقانی کا کہنا تھا کہ وہ ایک اسکالر ہیں اور اگر اسکالر کی حیثیت سے اُن کی رائے امریکا میںاتنا ہی وزن رکھتی ہے کہ اُس سے امریکی پالیسی متاثرہو رہی توپاکستان کی وزارت خارجہ اُن کے ساتھ اچھوت کا رویہ اختیار کرنےاور جھوٹے الزامات لگانے کی بجائے اُن کے موقف کو بروئے کار لاناچاہیے۔ انہوں نے اپنے بیان میں اپنے موقف کی تفصیلات تو بیان نہیں کیں لیکن یہ ضرور کہا کہ انہوںنے پاکستان کے خلاف کوئی لابنگ نہیں کی۔ اب یہ ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کریں کہ کس بنیادپر انہوںنے امریکا میںبسنے والے سابق پاکستانی سفیر کے بارے میں اتنے سنگین الزامات لگائے۔ میموگیٹ کی تحقیقات نے اُس معاملہ پر تو حقانی کو قصوروار ٹھہرایا تھا لیکن اُس عدالتی کمیشن کی رپورٹ کی بنیادپر کسی قسم کی کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی حسین حقانی کو پاکستان لانےکے لیے خواجہ آصف اور سرتاج عزیر کی حکومت نے کوئی کوشش کی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہماری حکومت اور دفتر خارجہ کو اپنی ناکام پالیسیوں پر غور کرناچاہے اور اُن وجوہات پر توجہ دینی چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا کےلیے اپنی خودمختاری، اپنی عزت، اپنے لوگ سب کچھ بیچنے کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ کبھی مخلص نہیں رہا اور الٹا ہمیں اب اپنی غلامی کے بعد ہندوستان کی غلامی میں شامل ہونےپر مجبور کر رہا ہے۔ اس موضوع پر تومیں حال ہی میں لکھ چکا ۔ یہاں میں حسین حقانی کی کسی بات کو رد کرنے یا اُسے چیلنج کرنے کی بجائے اپنے قارئین کے سامنے امریکا کی طرف سے پاکستان کو دفاعی سازو سامان، ایف 16 لڑاکا طیاروں، اور جنگی ہیلی کاپٹروں کی فروخت پر پاکستان کے اس سابق سفیر نے جو کچھ امریکا میں اپنے نام کے ساتھ لکھا اور کہا وہ پیش کر رہا ہوں تاکہ صحیح اور غلط کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر لیں۔19 اپریل 2015 کو نامور امریکی اخبار The Wall Street Journal نے حسین حقانی کا ایک مضمون شائع کیا۔ حقانی صاحب کے اس مضمون کا عنوان ـ"Why Are We Sending This Attack Helicopter to Pakistan?" (ترجمہ: ہم جنگی ہیلی کاپٹر پاکستان کو کیوں دے رہے ہیں)۔ مضمون حقانی صاحب کے نام کے ساتھ شائع ہواجس کی سرخی پاکستان کے سابق سفیر کی طرف سے یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ ’’ہم امریکی‘‘ پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹر کیوں فراہم کریں۔ اپنے مضمون کو حقانی صاحب شروع کرتے ہیں لکھتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کو ایک ارب ڈالر مالیت کے امریکی جنگی ہیلی کاپٹر، میزائل اور دوسرا سامان دینے کا فیصلہ ساوتھ ایشیا میں تنازعات کو بڑھکانے کا کام کرے گا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان میں جہادیوں کو ختم کرنےکےلیے اسلحہ کی کمی نہیں بلکہ ارادہ کا نہ ہونا ہے۔ پھر حقانی صاحب لکھتے ہیں کہ امریکی جنگی سامان پاکستان انڈیا کے خلاف استعمال کرے گا۔اس مضمون کے دوسرے پیراگراف میں حقانی صاحب پاکستان میں ہندوستان کے ساتھ برابری کی سوچ پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکا نے1950 سے اب تک پاکستان کو تقریباً 50 ارب ڈالر کی امداد دے کر پاکستان میں پائی جانے والی اس فریب سوچ (پاکستان ہندوستان برابری) کو تقویت دی۔ حقانی صاحب نے امریکا کو پھر مشورہ دیا کہ پاکستان کو جنگی ساز وسامان کی فراہمی کی بجائے پاکستان کو یہ باور کرایا جائے کہ اس کا ہندوستان سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اوباما انتظامیہ کو یہ باور کراتے ہوئے کہ امریکا فوجی امداد کی پاکستان کو فراہمی سےپرانی غلطی کو دہرا کر مثبت نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے، حقانی نے اس حیرت کا اظہار کیا کہ صدر اوباما نے اچانک کیوں پاکستان کی فوج پر اعتماد کیا۔اسی مضمون میں حقانی نے ماضی میں امریکا کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کے حوالے دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان نے ہمیشہ اس امداد کو ہندوستان کے خلاف استعمال کیا۔ حقانی نے اپنے اس مضمون میں امریکی انتظامیہ کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو دیے جانے والے ہیلی کاپٹر اور دوسرا اسلحہ جہادیوں کی بجائے بھارت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں موجود سیکولر باغیوں کے خلاف استعمال ہوںگے۔ 9 دسمبر 2015 کو ایک پاکستانی انگریزی اخبار میں حسین حقانی کا ایک بیان شائع ہوا جس کی سرخی یہ تھی"F-16 jets US plans to sell to Pakistan will be used against India: Husain Haqqani" (ترجمہ: امریکا کی طرف سے پاکستان کو دیے جانے والے ایف 16 طیارے ہندوسان کے خلاف استعمال ہوں گے: حسین حقانیـ) ۔ اپنے اس بیان میں حقانی صاحب نے ایف 16 طیاروں کی پاکستان کو فراہمی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ، امریکی انتظامیہ کی طرف سے سول نیکلئیر ڈیل پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کو پاک فوج کے ساتھ امریکا کی Appeasement Policy قرار دیا۔اس بیان میں بھی پاکستان کی طرف سے ہندوستان کے ساتھ برابری کی بنیادپربرتاو کرنے کی پالیسی کا مذاق اڑایا گیا۔ حقانی صاحب کا مضمون اور بیان جن کا اس کالم میں ذکر کیا گیا اُنہیں ہر کوئی انٹرنٹ پر پڑھ سکتاہے ۔ یہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ فیصلہ کریں کہ آیا جو لکھا اور کہا گیا وہ پاکستان کے مفاد میںیا اس کے خلاف تھا۔ حقانی صاحب نے بدھ کے روز شائع ہونےوالےبیان میں اپنی تین کتابوں کا بھی ذکر کیاجن کو پڑھنےسے اگر کسی کے ذہن میں کوئی غلط فہمی ہے تو وہ بھی دور ہو جائے گی۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی ریاست میں کیا کوئی ایسا سسٹم موجود نہیں کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک اہم نوعیت کی حکومتی تعیناتیاں کرتے وقت کم از کم ایک سیکورٹی چیک کر لیا جائے تاکہ ہمیں یہ تو یقین ہو کہ ہماری ترجمانی کرنے والے ہم میں سے ہیں اور کسی دوسرےکے پیرول پر نہیں۔جو اعتراضات آج حسین حقانی پر اٹھائےجا رہے ہیں، اُن کے بارے میں اُس وقت بھی باتیں ہو رہی تھیں جب انہیں امریکا میں سفیر مقرر کیا گیا۔ اس کے باوجود اگر حقانی کی تعیناتی ہوئی تواس میں قصور ریاست کا ہے اس لیے جو غلطی ماضی میں ہوئی اُسے دوبارہ دہرانے سے بچنے کےلیے حکومت، دفتر خارجہ اور فوج کو ملک کر اپنے سسٹمز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بعد کے رونےسے بچا جا سکے۔