میرا ارادہ کبھی بھی نریندر مودی وزیر اعظم بھارت پر لکھنے کا نہیں تھا کیونکہ انہی کے زمانے میںبابری مسجد کے انہدام اور 1905 میں ان کی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں گجرات میں ہول ناک فسادات ہوئے۔ جس میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا یا قتل کر دیا گیا۔مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو لوٹ لیا گیا۔ احمد آباد میں ایک صوفی ولی کا مزا ر مسمار کر دیا گیا۔ گو قانون نے ان کو بری کر دیا مگر اخلاقی طور پر یہ ذمہ دار تھے اور میں ان کو پسندیدہ افراد میں شامل نہیں کرتا تھا۔ ہوا یہ کہ 7 جون کے جنگ میں محترم ڈاکٹر مجاہد منصوری کا کالم بعنوان ’’مودی جی کی سفارتی پھرتیاں ریت میں مچھلی کی تلاش‘‘ نظر سے گزرا۔ اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ایک اپنے مشن میں کامیابی اور دوسرا ناکامی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا دوسرا مفہوم پیش نظررکھا ہے۔
راقم اس ساری بھاگ دوڑ کو معاشی نقطہ نظر سے دیکھ رہا ہے۔ 1905 کے بعد گجرات میں ان کی دوبارہ وزارت کے امکانات بہت کم تھے مگر وہ کامیاب ہوئے اور پھر آل انڈیا کانگریس کے امیدوار کو شکست دے کر ملک کے وزیر اعظم بھی منتخب ہو گئے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کا بھارت کو ’’ہندوتوا‘‘ ریاست بنانے کا منصوبہ ہے۔ یہ خاموشی سے کام کرتے ہیں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو غیر ہندوئوں (مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں) کو تنگ کرنے کی پوری آزادی دے دی۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آبادی بڑھانے کی خاطر تمام ذرائع اختیار کئے۔ ان کے خلاف صرف مسلمانوں اور سکھوں نے احتجاج کیا البتہ جب جون کے پہلے ہفتے میں امریکی کانگریس سے خطاب کیا تو وہاں اقلیتوں پر ناروا سلوک پر آواز اٹھائی گئی۔
وزیر اعظم کی حیثیت سے مستحکم ہو جانے کے بعد انہوں نے عالمی سیاسی گھوڑے دوڑانا شروع کئے۔ نیپال اور بھوٹان گئے وہاں مندروں کا دورہ کیا پھر کمبوڈیا اورلا ئوس گئے۔ ویسے حال میں نیپال سے معاملات بگڑ گئے ہیں اور نیپالی صدر نے اپنا بھارت کا دورہ منسوخ کر دیا افغانستان میں بھارت پہلے ہی سے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا تھا چنانچہ انہوں نے افغانستان کا دورہ کیا، ان کے فوجیوں کی تربیت کا وعدہ کیا افغان طلبا کو بھارت میں تعلیم کے لئے وظائف دیئے۔ افغان ، طالبان اور پاکستان کے درمیان جو صلح و آشتی کی گفت و شنید ہو رہی ہے اس میں دخل دے کر مصالحتی کمیٹی کا رکن بن گیا اب دریائے کابل پر ڈیم بنانے کی پیشکش کی ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا اثر زیرو ہو جائے، یہ چند گھنٹوں کے لئے پاکستان بھی آئے اور وزیر اعظم کی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔
اس کو طلسماتی عمل سمجھا جائے یا کچھ اورکہ وہ شخص جس کا داخلہ امریکہ میں بند تھا۔ دفعتاً امریکہ کاایسا چہیتابن جاتا ہے کہ چار بار وہاں جاتا ہے امریکی صدر بھارت آتا ہے تو مودی اس کو خود چائے بنا کر پیالی پیش کرتا ہے۔ جون میں جب یہ امریکہ گئے تو نیوکلیر سپلائزر میں بھارت کی شمولیت کی تائید کی ۔ امریکہ اقوام متحدہ کی کونسل کی رکنیت کے لئے بھی بھارت کا حمایتی ہے۔
امریکہ نے بھارت کو فطری اتحاد قرار دیا ہے۔ مودی صاحب نے کہا کہ ہماری بحرہند میں سرگرمیوں کا فائدہ امریکہ کو ہو گا اور مضبوط بھارت امریکی مفاد میں ہے اور امریکہ نے پاکستان سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ ایف 16 ہوائی جہاز دینے سے انکار کر دیا ہے۔ طالبان کے ایک گروپ کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بلا روک ٹوک ڈرون حملے کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی بہانے امداد اور قرضے کی رقوم میں تخفیف کر دے یہ ہے سیاست۔
بھارت نے ایران اور افغانستان نے ایک جدید بندر گاہ چابہار کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے پر اتفاق کر لیا ہے یہاں سڑک اورریل بھی بنائی جائے گی اس کے ذریعے پاکستان کو نظر انداز کر کے نئی دہلی اور کابل کو ملا دیا جائے گا اور اس کو جنوبی اور وسطی ایشیا تک لے جایا جائے گا اس کو ایک طرح پاک چین اقتصادی راہداری کا جواب سمجھنا چاہئے جس سے بھارت بہت خوف زدہ ہے۔
مودی جاپان ، چین، ملائیشیا، سعودی عرب، قطر، فرانس وغیرہ گئے ۔ پوپ اور ملکہ برطانیہ سے ملے۔ بھارت کے کسی وزیر اعظم نے ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں اتنے سفر نہیں کئے۔ ایک بھارتی کالم نگار نے پاکستان کے انگریزی اخبار میں لکھا۔
Modi is the unrivalled star of the international circuit.
اور وہ مزیدکہتا ہے
India has finally arrived in the Globle Stage after long years in the wilderness.
مودی ان بیس بائیس ملکوں میں ڈنر کھانے تحفے دینے امداد کے وعدے کرنے نہیں گئے تھے انہوں نے ہر جگہ معاشی اور ثقافتی معاہدے کئے اس سے بھارت کی تجارت خارجہ میں اضافہ ہو گا روز گار بڑھے گا بے روزگاری میں کمی ہو گی اور اس نے ریت سے ایک بڑی مچھلی نکال لی ۔ یہ سارا کھیل شطرنج کی وسیع بساط تھی جس پر سوچ سمجھ کر مہرے کھیلے گئے اور کھیلے جا رہے ہیں۔ کیا ہمارے یہاں بھی کوئی کامیاب شطرنج باز ہے یا نہیں؟ اس وقت افغانستان بھارت اور امریکہ سب سے معاملات کشیدہ ہیں۔ اوباما کی بقیہ صدارت کے دوران ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، ہو سکتا ہے کہ ہیلری کلنٹن کے دور میں کوئی نئی پالیسی بنے وہ پاکستان سے بخوبی واقف ہیں مگر ہیں تو امریکی۔