• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی سیاست اس وقت تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے۔جنوب مشرقی ایشیا کا خطہ ان تبدیلیوں کا بڑا مرکز ہے۔امریکہ بہادر نے اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بھارت کو بنا رکھا ہے۔جس کے باعث بھارتی معیشت کو پر لگ چکے ہیں۔امریکہ پوری کوشش میں ہے کہ کسی بھی طریقہ سے بھارت کو چین کے مقابلے میں لا کھڑا کیا جائے۔جبکہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔اس نے ہمسایہ ملک افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کی مغربی سرحد پر بدامنی کے نئے دروازے کھولے ہیں۔افغانستان کے ساتھ پاکستان کی طویل سرحدی پٹی بھارت کی ریشہ دوانیوں کے باعث غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ امریکہ کی سہ نکاتی حکمت عملی کی بدولت اس وقت پاکستان کی دونوں سرحدیں مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔پاکستان کی کمزور معیشت آئی ایم ایف کے سہارے کھڑی ہے۔حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرضہ دینے سے پہلے جس کڑے امتحان سے گزارا وہ امریکی رویے کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ان حالات میں چین ہی واحد ملک ہے جو اس وقت خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھے ہوئے ہے۔چین کے ''ون بیلٹ ون روڈ ''منصوبے نے نہ صرف امریکہ کو ششدر کر رکھا ہے بلکہ اس نے یورپ کیلئے بھی سوچنے کے کئی دریچے وا کر دیے ہیں اور پاکستان اس منصوبے کا کلیدی کردار ہے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر سامنے آیا ہے۔2022ء میں چین اور پاکستان کی درمیان باہمی تجارت کا حجم 26.5 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری، اس سرمایہ کاری کا ایک بڑا سبب ہے۔سی پیک دراصل چینی صدر شی جن پنگ کا آئیڈیا تھا جو انہوں نے وقتا فوقتا ہر پاکستانی حکمراں کو بتایا۔صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس پر بنیادی گفت و شنید ہوئی۔صدر آصف علی زرداری نے مسلسل کئی مرتبہ چین کے دورےکئے۔اور پھر 2013ءمیں میاں نواز شریف کے دور حکومت میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔اپریل 2015ءمیں چینی صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا دورہ کیا۔اس دورے کے دوران سی پیک کے منصوبوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔اس منصوبے میں بظاہر تو قدیم شاہراہِ ریشم کا روٹ بحال کرنا مقصود تھا تاہم اس کے ساتھ منسلک منصوبوں نے پاکستان کی معیشت کو نیا خون عطا کیا نیم مردہ معیشت پاؤں پر کھڑی ہوگئی جبکہ امریکہ نے سی پیک اور اس سے جڑے منصوبوں کو روکنے کیلئے کئی ملکوں پر مشتمل اتحاد قائم کئے۔جدید ٹیکنالوجی تک چینی حکام کی رسائی ناممکن بنانے کی کوشش کی گئی۔سمندر میں چینی مصنوعات کو دیگر ممالک تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن اس کے باوجود چین نہ صرف اپنے عزم پر قائم رہا بلکہ مسلسل دھیمے انداز میں امریکی طاقت کو چیلنج بھی کرتا رہا۔آج چین معاشی طور پر ایک ایسی حقیقت بن کر سامنے ا ٓچکا ہے کہ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کا کوئی ملک اسے نظر انداز کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔اگر اس منصوبے کو پاک چین دوستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ منصوبہ پاک چین کی لازوال دوستی کے طور پر دنیا بھر کے لئے ایک مثال ہے۔سی پیک کے ذریعے پاکستان میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملی۔اس منصوبے کا سب سے اہم حصہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں تشکیل پانے والے 9 اسپیشل اکنامک زونز ہیں جہاں چینی کمپنیاں،صنعتیں لگا کر پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کر رہی ہیں اور عام لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا رہا ہے۔پنجاب کا اکنامک زون’’ علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی ‘‘ فیصل آباد میں تعمیر کیا جا رہا ہے جس کا 25 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے۔اب یہاں پر چین کی 150 سے زائد کمپنیاں اور سرمایہ کار تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔خیبر پختونخوا میں رشکااکنامک زون پر 30فیصد،بلوچستان میں بوستان اسپیشل اکنامک زون پر 20 فیصد،اور سندھ میں دھابیجی اسپیشل اکنامک زون پر 5فیصد کام مکمل ہوا ہے۔اس سلسلے میں طے شدہ اہداف کے مطابق یہ تمام اکنامک زون 2020 ءتک مکمل ہونے تھے تاہم کرونا وبا اور دیگر وجوہات کی بنا پر ان کی تکمیل میں تاخیر ہوئی تاہم اب ان منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔اس سال پاک چین اقتصادی راہداری کی 10سالہ تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ان میں شرکت کیلئے چین کے نائب وزیراعظم لیفنگ خصوصی طور پر چینی حکومت کے خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے پاکستان تشریف لائے ہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری کے معاملات میں لیفنگ ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں اور انہیں چینی صدر شی جن پنگ کا خصوصی اعتماد بھی حاصل ہے۔انہوں نے 2017 سے 2023 ءتک نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے پاکستان میں سی پیک کی منصوبہ بندی اور اس سے جڑے منصوبوں پر عمل درآمد میں اہم کردار ادا کیا۔اس سے قبل مئی کے شروع میں چینی وزیر خارجہ چن گانگ نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں پاکستان چین اور افغانستان نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت سہ فریقی تعاون مضبوط بنانے اور سی پیک کو افغانستان تک وسیع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا۔اس وقت ایک طرف تو سی پیک تیزی سے منزل کی جانب گامزن ہے تو دوسری طرف پاک چین تعلقات میں بھی مزید مضبوطی پیدا ہورہی ہے پاکستان کی مسلح افواج نے چینی ماہرین اور مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے کارکنوں کی حفاظت کا خصوصی بندوبست کر رکھا ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل کی نئی صف بندی میں چین دنیا کے ایک بڑے حصے کی قیادت کریگا اور پاکستان اسکا بنیادی پارٹنر ہوگا۔ان منصوبوں سے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے میں مدد ملے گی اور پاکستان بھی ترقی کے نئے سفر پر گامزن ہوگا۔

تازہ ترین