survival of the fittestارتقا کا ایک اٹل اصول ہے ۔ارتقا کوئی غیر منطقی علم نہیں ، جو ہوا میں معلق ہو بلکہ اس کی جڑیں سائنس پر استوار ہیں ۔ برصغیر میں ارتقا کا یک سطری ترجمہ یوں کیا گیا ’’ڈارون کہتا ہے کہ انسان کے آبائواجداد بندر تھے ۔‘‘اس کے بعد ارتقا سے ایک شدید نفرت نے ہی جنم لینا تھا کہ ہم تو نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے ۔ پھر بہت سے غیر علمی سوالات اٹھائے گئے ۔ مثلاً یہ کہ اب کیوں بندر انسانوں میں بدل نہیں رہے ۔
ارتقا نے یہ کہا ہی نہیں کہ انسان بندر میں سے نکلا۔ ارتقا تو یہ بتاتا ہے کہ لاکھوں سال پیچھے کا سفر کریں توانسانوں ، چمپینزیوں اور باقی گریٹ ایپس کے آبائو اجداد مشترک تھے ۔یہ معلومات فاسلز کے علم سے حاصل ہوئیں ۔نینڈرتھلز سمیت کئی مخلوقات دو ٹانگوں پر چلتی تھیں اور انسا ن ان میں سے ایک تھا۔ آپ لاکھوں کروڑوں سال پیچھے کا سفر کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ سب سے آخر میں گریٹ ایپس وجود میں آئے ۔ ان سے پہلے پرائمیٹس ، ان سے پہلے میملز، ان سے پہلے ریپٹائلز اور ان سے پہلے سمندری حیات ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کرّہ ارض پہ زندگی ارتقا کرتی رہی ۔حرفِ کُن کا مطلب مگر یہ ہرگز نہیں کہ ایک سیکنڈ میں سارے جاندار موجودہ حالت میں اچانک تخلیق ہو گئے ہوں ۔
یہ اٹل علم ہے ، ٹامک ٹوئیاں نہیں۔ جب رینگنے والے جانور تخلیق ہوئے تو میمل ایک بھی نہ تھا۔ زندگی جب سمندر میں تخلیق ہوئی تو کروڑوں برسوں تک مگر مچھ یا کوئی اور ریپٹائل اپنا وجود نہ رکھتا تھا ۔یہی علم بتاتا ہے کہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ڈائنا سار اچانک ختم ہو گئے ۔
ارتقا کا اٹل اصول یہ ہے کہ جو جاندار بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو تبدیل نہ کر سکیں وہ ناپید (extinct)ہو جاتے ہیں ۔ بچ رہنے والوں کی پھر لاٹری نکل آتی ہے ۔ اسے سروائیول آف دی فٹسٹ کہتے ہیں ۔
ایک گائنا کالوجسٹ سے سوال کیا : رحمِ مادر میں کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی بچہ اس وقت کیوں ضائع ہو جاتاہے ، جب اس کے تمام اعضا تخلیق ہو چکے ہوں اور دل دھڑک رہا ہو۔ بے ساختہ بولی : سروائیول آف دی فٹسٹ ۔زندہ وہی رہتاہے جو سخت جان ہو ۔ یہ بھی بتایا کہ عین ممکن ہے کہ بچہ ضائع نہ ہو توعمر بھر کیلئے بیمار رہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمِ مادر ہی سے بچہ سروائیول آف دی فٹسٹ کی یہ جنگ لڑنا شروع کر دیتاہے ۔ اس سے بھی پہلے ، لاکھوں سپرمز میں سے ایک بچتا ہے ۔
انسانوں کی اس دنیا میں مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس دنیا میں ایک وقت میں ہمیشہ چند لاکھ لوگ ہی موجود ہوا کرتے تھے ۔زچگی کی مشکلات اور بعد ازاں بیماریوں کی وجہ سے ان میں سے کئی کم سنی میں مر جایا کرتے ۔ کم ہی لوگ بڑھاپے تک پہنچتے۔میڈیکل سائنس کی ترقی سے، جسے آج ایلو پیتھک کانام دیا جاتا اور مطعون کیا جاتاہے ، سرجری اور سب سے بڑھ کر ویکسی نیشن کی وجہ سے زیادہ تر بچے اب زندہ رہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی آبادی آٹھ ارب کو پہنچ چکی ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ بہت زیادہ لوگ اب محدود وسائل کے لئے لڑ رہے ہیں ۔ دکان کے آگے دکان کھل رہی ہے ۔ یہ جو ’اوبر‘ ،’کریم‘،’ان ڈرائیو‘ اور ’بائیکیا‘ جیسی کمپنیاں روایتی ٹیکسی والوں پہ دھاوا بولتی نظر آتی ہیں ، یہ انسانوں کی آپس میں بقا کی خوفناک جنگ ہی توہے۔
امریکہ کا سالانہ بجٹ 6ہزار ارب ڈالر کا ہے ۔ دفاعی بجٹ 700ارب ڈالر۔چین کابجٹ 3600 ارب ڈالرہے ، سعودی عرب کا 193 ارب ڈالر ۔ پاکستان کو جب صرف ایک ارب ڈالر مانگنا ہوں تو پوری دنیا میں ہم ذلیل ہوتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اتنی ترقی کے باوجود دن رات ہم کام کرتے ہیں ، آپ کو بیٹھے بٹھائے دے دیں ۔ قطر والے سارے کروڑ پتی ہیں ۔اس کے باوجودبے تحاشا سرمایہ کاری اور محنت کر کے فٹ بال کے ورلڈ کپ سے انہوں نے 17ارب ڈالر منافع کمایا ۔اس کے لئےآپ کو فٹ بال اسٹیڈیم اور گرائونڈز بنانے کے علاوہ ملک بھر میں سیاحوں کےٹھہرنے اور سکیورٹی کے انتظامات کرنا ہوتے ہیں ۔ پیسہ کمانے کا سارا کھیل مینجمنٹ کاہے ۔ہماری مینجمنٹ کا حال یہ ہے کہ عشروں سے خسارے کا شکار ریلوے ، پی آئی اے اور اسٹیل مل جیب سے پیسے ڈال کر چل رہی ہیں ۔ اسٹیل مل تو کب سے بند ہے ۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اس کی نجکاری روکنے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا ۔تو ان قوموں نے محنت کر کے کمایااور ہم نے ان سے اتنا مانگا کہ اب ہمارے حکمرانوں کو دیکھتے ہی ان کے تاثرات عجیب سے ہو جاتے ہیں۔
اب نئی خوشخبریاں قوم کو سنائی جا رہی ہیں۔ وہاں سے تانبا نکل آیا۔ یہاں ٹینڈے کاشت کئے جائیں گے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ ریکوڈک میں کیا ہوا؟ پہلے جب ہم سرمایہ کار کو لینے جاتے ہیں تو اس کی ہر شرط مان لیتے ہیں۔ ایک دن اچانک ہوش آتا ہے کہ ہمیں تو لوٹا جا رہا ہے ۔ پھر آپ وحشی ہو کر سرمایہ کار پہ چڑھ دوڑتے ہیں۔ عالمی اداروں میں ہم پہ جرمانے عائد ہوتے ہیں۔ پھر ہم صلح صفائی کرنا چاہتے ہیں۔ اس حساب سے ہمارے ہاں ہیروں کی بارش بھی ہو جائے ، رہنا ہم کو غریب ہی ہے۔
سروائیول آف دی فٹسٹ بیچ میں ہی رہ گیا ۔دنیا جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے ، جتنا ہم پہ قرض چڑھ چکا ہے، پاکستان کے پاس اب زیادہ مہلت نہیں۔ بدلتی دنیا کے بدلتےحالات میں خطرہ یہ ہے کہ خاکم بدہن پاکستان extinctہو جائے گا۔ ہمارے لئے خدا آسمان سے نہیں اترے گا۔ ترقی و خوشحالی کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)