میں دوران تعلیم جماعت اسلامی اور یوں اسلامی جمعیت طلبا کے ہمدردوں میں شامل رہا ہوں۔گاہے گاہے 5ذیلدار پارک اچھرہ بھی چلا جاتا تھا جہاں سید مودودیؒ جماعت سے تعلق رکھنے والے احباب سے مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے ہوتے تھے، میں نے اس تاریخی جلسے میں بھی شرکت کی تھی جو ایوب خان کے دور آمریت میں موچی دروازہ کے گرائونڈ میں جماعت کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا اور جس میں مولانا مودودیؒ بھی شریک تھے، یہاں حاضرین پر حکومتی غنڈوں نے فائرنگ بھی کی تھی، جس کے نتیجے میں ایک کارکن شہید بھی ہوگیا تھا۔ جماعت سے یہ تعلق قاضی حسین احمد مرحوم کے دور امارت میں ختم ہوگیا، مگر جماعت کے دوستوں سے میری محبت اور تعلق آج بھی قائم و دائم ہے جن میں حافظ محمد ادریس، لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ شامل ہیں۔ یہ دوست جماعتی ڈسپلن میں رہتے ہوئے وسیع المشرب ہیں اور آج بھی بہت محبت سے پیش آتے ہیں۔
مجھے آج یہ باتیں برادرم فرید پراچہ کی نئی تصنیف ’’میرے رہنما میرے ہم نوا‘‘ موصول ہونے پر یاد آئیں۔ فرید پراچہ مولاناگلزار احمد مظاہریؒ کے صاحبزادے ہیں، آپ اہل قلم بھی ہیں اور اہل دل بھی، انہوں نے کیا خوبصورت انداز میں اپنی یادیں مرتب کی ہیں، انہوں نے جن احباب کا ذکر کیا ہے ان میں سے بہت سوں کے ساتھ میری بھی یاد اللہ رہی ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر فرید پراچہ نے صرف جماعت سے وابستگان ہی کا ذکر نہیں کیا بلکہ بہت فراخدلی سے مختلف مکاتب فکر کی نمایاں شخصیات شامل ہیں۔ مثلاً علامہ طاہر القادری، خواجہ محمد رفیق شہید، آغا شورش کاشمیری، مجید نظامی، مولانا عبدالرحمٰن اشرفی، علامہ خادم حسین رضوی، مفتی محمد حسین نعیمی، ڈاکٹر اسرار احمدکے علاوہ شیعہ علما کا بھی مختصر سا تذکرہ ہے اور میں اس وقت تو بہت اداس ہوگیا جب میں نے اپنے بہت عزیز دوست رئوف طاہر مرحوم کا نام بھی اس یادوں بھری کتاب میں پڑھا، اسی طرح صفدر چوہدری مرحوم بھی مجھے بہت یاد آئے کہ انیسویں صدی کی دہائی میں امریکہ جاتے ہوئے زاد راہ کیلئے میں نے اپنی ففٹی سی سی ہونڈا موٹر سائیکل مبلغ پندرہ سو روپے میں انکے پاس بیچی تھی۔
اس کے علاوہ بہت تفصیلی تذکرہ سید مودودیؒ کا ہے بلکہ ان کے تذکرے اور ان کی جماعت کےسرکردہ لوگوں سے یہ پوری کتاب بھری ہوئی ہے۔ فرید پراچہ نے یاد کرنے کا حق ادا کردیا ہے، خوبصورت نثر اور پیرائیہ بیان کی دلکشی کی وجہ سے میں یہ ضخیم کتاب آدھی سے زیادہ پڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ بات میں نے یوں کہی ہے کہ مجھے دوستوں کی بہت کتابیں روزانہ موصول ہوتی ہیں جو ان کے دستخطوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور یوں سب کتابیں شروع سے آخر تک پڑھنے میں کامیاب نہیں ہوتا، کچھ کو تو بس سونگھ کر الگ رکھ دیتا ہوں اور کسی کے بیس پچیس صفحات پڑھنے میں کامیاب ہوتاہوں، مگر فرید پراچہ نے مجھے باندھ کر رکھا، باقی آدھی کتاب بھی بعد میں پڑھوں گا۔
انہی دنوں متنوع شخصیت کے حامل میرے دوست سید سلمان گیلانی کی کتاب بھی منصہ شہود پر آئی ہے۔ گیلانی صاحب ایک باکمال شاعر اور شخصیت سید امین گیلانی کے صاحبزادے ہیں، امین گیلانی اپنے اعلیٰ کلام کے علاوہ اپنے بے پناہ ترنم کے حوالے سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ سلمان گیلانی کی کتاب ’’میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ مصنف کی طرح بہت دلچسپ اور تنوع یادوں سے بھری ہوئی ہے۔ جیساکہ آپ سب جانتے ہیں سلمان گیلانی طنز و مزاح کے شاعر ہیں اور ان دنوں ٹی وی چینلز اور مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے طنز و مزاح کے مشاعروں میں چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میری ان سے ملاقات ان کی شاعری کے آغاز میں ہی ہوئی تھی اور پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر مشاعرے کی ناگزیر ضرورت بھی بن گئے۔ خوبصورت لحن انہوں نے اپنے والد گرامی سے مستعار لیا ہے۔ فرید پراچہ کی طرح یہ کتاب بھی رنگ برنگ یادوں سے سجی ہوئی ہے۔ میں حیران ہوا جب میں نے اس کتاب میں ہر مکتب فکر کے علما سے ان کی ملاقاتوں کا احوال پڑھا اور ان کی جائز توصیف کے حوالے سے کہیں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ مجھے یہ کتاب پڑھ کر اسلئے بھی لطف آیا کہ یہ ان کےمزاج بلکہ جس حوالے سے وہ معروف ہیں اس سے بالکل مختلف ہے۔ سامعین کے قہقہے ’’نکال‘‘ دینے والا سلمان گیلانی یہاں جتنا سنجیدہ نظر آتا ہے مجھے اس سے اتنی سنجیدگی کی امید نہیںتھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی نثرپڑھتے ہوئے یہ گمان بھی نہیں گزرتا ہے کہ مزاحیہ شاعری کا یہ مردِ میدان نثر میں بھی اپنے جھنڈے گاڑ سکتا ہے۔ تاہم برادر عزیز اپنی کتاب میں جمعیت علمائے ہند کا دفاع کرتے کرتے پٹری سے بار بار اترے ہیں اور اس دور کے مسلم لیگی کارکنوں اور زعما کے حوالے سے جو زبان اور انداز اختیار کیا ہے وہ اتنی خوبصورت شخصیت کے حامل سلمان گیلانی کو زیب نہیں دیتا۔ پاکستان کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت میں جدوجہد کرنے کی تاریخ اب تاریخ ہی کے حوالے ہے اور وہ اسلئے بھی کہ علمائے دیوبند کی وہ شخصیات جو پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھیں، جب پاکستان بنا تو انہوں نے انڈیا میں رہنے کی بجائے پاکستان میں قیام کو ترجیح دی۔ اس حوالے سے سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ کا یہ جملہ سابقہ تنازعات پر کلہاڑی کے وار کی مانند ہے کہ ’’مسجد جب بن جائے تو اسے ڈھایا نہیں کرتے بلکہ اس کی مزید تزئین و آرائش کرتے ہیں‘‘۔