وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط بہت سخت ہیں، پروگرام نہ ملتا تو پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا۔ ڈیفالٹ کرتے تو دکانوں پر جان بچانے والی ادویات تک نہ ملتیں۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج یہ پروگرام ہماری حکومت کی مدت پورے ہونے پر شروع ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کا شعبہ ملک میں انقلاب لائے گا اس میں کوئی شک نہیں، آج ملک کو سستی بجلی کی ضرورت ہے، سستی بجلی کے بغیر صنعت اور زراعت میں ترقی نہیں ہوسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سستی بجلی مہیا کرنا کسی بھی حکومت کا فرض اوّل ہے، میں نے اور حکومت نے شمسی توانائی کےلیے بےپناہ کوششیں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی افراتفری بہت زیادہ تھی، ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا تھا جس کا صحیح طور پر اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملتا تو پھر پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا؟ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملتا تو عوام کس مشکلات سے دوچار ہوتے۔ آئی ایم ایف کی شرائط بڑی کڑی اور سخت ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ہوتا، خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا تو ادویات نہ مل رہی ہوتیں۔ ملک ڈیفالٹ کر جاتا تو زندگی بچانے کی ادویات کےلیے لوگ مارے مارے پھرتے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک ڈیفالٹ ہوجاتا تو پیٹرول پمپوں پر قطاریں لگی ہوتیں۔ ملک ڈیفالٹ ہوجاتا تو صنعتیں بند ہوجاتیں، لوگ بےروز گار ہوجاتے۔ ملک ڈیفالٹ ہوجاتا تو ایل سیز نہ کھلتیں، کوئی ملک تجارت نہ کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک ڈیفالٹ کر جاتا تو افراتفری مچ جاتی۔ سری لنکا ڈیفالٹ ہوا، وہاں پر دکانوں پر قطاریں لگیں اور افراتفری مچی۔
شہباز شریف نے کہا کہ زراعت کے پہیے کو تیزی سے گھمانا ہے، وہ کوالٹی کھاد کی دستیابی کے بغیر ممکن نہیں۔
ملک میں مہنگی بجلی پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ ہے۔ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو کم داموں پر بجلی دی جاتی ہے تاکہ بوجھ نہ پڑے۔
انکا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ہمارے ہاتھ بند کردیے کہ آپ کسی شعبے کو سبسڈی نہیں دیں گے، ایسی صورتحال میں ہم کیا کریں؟ آج تیل سے مہنگی ترین بجلی پیدا ہوتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگیا۔
اسمبلی کی تحلیل پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد صدر پاکستان کو بھیج دوں گا کہ اسمبلی کو تحلیل کردیا جائے۔
شمسی توانائی سے اہم منصوبہ کوئی نہیں ہوسکتا، فیصلہ کیا ہے کہ سولر ٹیوب ویل پر منتقلی پر کسان صرف 33 فیصد دے گا۔
انکا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت سولر ٹیوب ویل پر منتقلی کےلیے 33، 33 فیصد ادا کریں گی۔
وزیراعظم نے حکومت کے ابتدائی ادوار کی بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سنبھالی تو ایسی صورتحال کا سامنا کیا جس کا اندازہ ہی نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ تیل کے کارٹیل کے جادو کی وجہ سے ملک میں ساری بجلی تیل سے ہی بنتی ہے، پاکستان میں شمسی توانائی، پانی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تھرکول پر توجہ نہیں دی گئی، اربوں روپے کا کوئلہ درآمد کروایا گیا۔
وزیراعظم نے ملک میں ڈیم کی کمی کی جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ڈیمز نہ بننا سیاسی قیادتوں اور فوجی آمریتوں کی ناکامی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگلی حکومت جو بھی آئے، عوام اور خدا سے وعدہ کرے کہ دن رات محنت کر کے کشکول توڑیں گے اور پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔
وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کو موقع ملا تو ہم زرعی انقلاب لے کر آئیں گے، غربت کا خاتمہ کریں گے اور قرض سے جان چھڑائیں گے۔