ملک میں مختلف سیاسی گروہوں نے ایک دوسرے کے تضحیک آمیز نام رکھ چھوڑے ہیں ۔ ا ن ناموں سے وہ ایک دوسرے کو پکارتے اور ایک دوسرے کی تذلیل کرتے ہیں ۔نون لیگ کے حامیوں کو تحریکِ انصاف والے پٹواری کہتے ہیں ۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی والے تحریکِ انصاف کے حامیوں کو قومِ یوتھ یا مختصراً یوتھیے کہہ کر بلاتے ہیں ۔جو لوگ فوج کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، طنزاً انہیں موچی کہا جاتا ہے ۔مجھے بھی کئی بار موچی کہا گیا ۔مجھے اس پہ بھی کوئی اعتراض نہیں اور میں امید کرتاہو ں کہ افواجِ پاکستان ایک موچی کی فریاد سننا گوارا کریں گی ۔
جو افواج جنگ میں مصروف ہوتی ہیں ، ان میں عموماً خودکشی کی شرح بلند ہو جاتی ہے ۔اس لیے کہ قتل و غارت اور خون دیکھنے سے انسانی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے ۔2012ء میں برطانیہ اور امریکہ کےاتنے فوجی افغان جنگ میں قتل نہیں ہوئے، جتنوں نے خودکشی کی ۔ اس پر میں نے یہ لکھا کہ جنگوں میں مصروف افواج میں واحد پاکستانی فوج ایسی ہے ، جس میں خودکشی کی شرح صفر ہے ۔ بھارت میں سالانہ 190فوجی جوان اور افسر خودکشی کر تے ہیں ۔
اسکے علاوہ میں نے یہ لکھا کہ سوات ، جنوبی اور شمالی وزیرستان آپریشن میں شہید ہونے والے فوجیو ں اور ہلاک ہونے والے جنگجوئوں کا تناسب ایک اور دس کا ہے ۔ایک فوجی شہید ہوتا تو دس جنگجو مارے جاتے۔یہ تعداد قرآن میں بیان کردہ تعداد کے عین مطابق ہے ۔
اس کے مقابلے میں عمران خا ن کے خلاف میرا ایک ذاتی تعصب بھی ہے ۔ میرے والد ہارون الرشید نے عمران خان کی خاطر اپنی زندگی نذر کردی ۔ اس نے یوں آنکھیں پھیریں جیسے جانتا ہی نہ ہو ۔اس کے باوجود کچھ باتیں ہیں ، فوجی قیادت کے جو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔
شمالی وزیرستان کا آپریشن شروع ہوا تو شہید ہونے والے سپاہی چراغ دین کی کہانی لکھی ۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ فوج کا میں حامی رہا ہوں ، مخالف نہیں۔ ایک فوج جو دہشت گردی کے خلاف ملکی بقا کی جنگ جیت کر قوم کو بچا لیتی ہے ،وہ اپنے خلاف تقاریر یا مظاہرے کرنے والوں کے خلاف مقدمات اور انہیں جیلوں میں ڈالنے کی محتاج کیوں ہو گئی۔ ایسا وقت کیوں آیا کہ آئی ایس آئی کے چیف کو ایک سیاسی لیڈر کے خلاف پریس کانفرنس کرنا پڑی ۔اس لیڈر پہ دو سو مقدمے قائم ہو گئے اور وہ جیل میں پڑا ہے ۔اس کے باوجود پشاور میں ایک نشست پر بلدیاتی انتخاب ہوتاہے تو تحریکِ انصاف جیت جاتی ہے ۔
اس کے مقابلے میں ، آپ کو مرحوم سید منور حسن والا واقعہ یاد ہوگا ۔انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ طالبان سے جنگ میں مرنے والے پاکستانی فوجی شہید نہیں ، جب کہ امریکہ کے ہاتھوں قتل ہونے والا حکیم اللہ محسود شہید ہے ۔دو دن انتظار کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ بیان دیا کہ سید منور حسن ہزاروں شہدا کی توہین کے مرتکب ہوئے ؛لہٰذ ا معافی مانگیں ۔ پوری قوم جنرل کیانی کی پشت پہ کھڑی ہو گئی۔ یہی وہ واقعہ تھا ، جس کے نتیجے میں سید منور حسن دوبارہ جماعت اسلامی کے امیر نہ بن سکے ۔
یہ ہوتاہے حق پر قائم فوج کا بیانیہ ۔ فوج کا قد کاٹھ ایک سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈر سے بہت بڑا ہوتاہے ۔ اس نے ملکی بقا کی جنگ لڑنا ہوتی ہے ۔ فوج میں بے شمار ایسے جوان اور افسر موجود ہوں گے ، جن کے پیارے تحریکِ انصاف میں شامل ہوں گے ۔ بے شمار فوجی جوان اور افسر ذاتی طور پر عمران خان کیلئے پسندیدگی رکھتے ہوں گے مگر بطور ادارہ فوج سیا سی تقسیم سے بالاتر ہوتی ہے ۔ ایک سیاسی جماعت نے اقتدار میں آکر غیر مقبول اقدامات کرنا ہوتے ہیں ۔ وہ کیسے غیر متنازع فوج سے مقبولیت کی جنگ جیت سکتی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوج کا ایک بیان عمرا ن خان کی مقبولیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ۔ ہو یہ رہا ہے کہ عمران خان جیل میں ہیں اور پھر بھی الیکشن جیت رہے ہیں ۔ ناقدین یہ کہتے ہیں کہ فوج کبھی نواز شریف کو تخلیق کرتی ہے ، پھر انہیں ٹھوکرمار کے نکالتی ہے ، پھر انہیں واپس اقتدار میں لے آتی ہے۔کبھی وہ عمران خان کے سر پہ ہاتھ رکھتی ہے ۔ پھر وہ انہیں نکال دیتی ہے۔پھر وہ عمران خا ن کے ساتھ ایک ذاتی سیاسی جنگ میں مصروف ہو جاتی ہے۔ بھارت کی طرح پاکستان بھی ایک فاشسٹ ملک بن چکا ۔ آزادی ء اظہار کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ملک کی سب سے مقبول جماعت کے چیئرمین کا نام لینے پر پابندی ہے ۔توشہ خانہ کی ایک گھڑی بیچنے پر عمران خان جیل میں ہے اور قیمتی گاڑیاں لینے والے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ وہ لوگ حکومت میں ہیں ، جنہو ں نے اربوں روپے کی کرپشن کی اور منی لانڈرنگ کر کے اسے بیرونِ ملک منتقل کیا ۔بیرونِ ملک ان کی جائیدادیں بکھری پڑی ہیں۔
یہ وہ لوگ تھے،جن کے خلاف جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے بے تحاشا ثبوت موجود تھے ۔ عمران خان سے عسکری قیادت نے کہہ رکھا تھا کہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرنا ۔ یہی وجہ تھی کہ کپتان بار بار یہ اعلان کرتا کہ کسی قیمت پر شریفوں اور زرداریوں کو این آر او نہیں دوں گا ۔ اندر خانے شریفوں اور زرداریوں سے ہاتھ ملا لیا گیا ۔ جس لیڈر نے کوئی کرپشن نہیں کی تھی، وہ جیل میں پڑا ہے ۔ جنہوں نے رج کے کرپشن کی اور ایک دوسرے کے خلاف اقبالی بیان دیے، وہ بادشاہ اور وزیر بنے بیٹھے ہیں ۔
مچھر چھانے اور اونٹ نگلے جا رہے ہیں ۔ یہ ہے مملکتِ خداداد کا احوال !