وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر ہم الیکشن جیتے تو وزیراعظم نواز شریف ہی ہوں گے۔
ایک انٹرویو میں شہباز شریف نے کہا کہ میری کارکرردگی سے متعلق سوال نواز شریف سے ہی پوچھ لیں، نواز شریف والد کی جگہ ہیں، سمجھاتے ہیں اور ہم ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کل رات میں نے اسمبلی تحلیل کی ایڈوائس صدر پاکستان کو بھجوائی، آئین کہتا ہے اس سے پہلے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ سمری بھیجنے کا مرحلہ رات کو پورا ہوا، صدر نے دستخط بھی کردیے، آج پہلی ملاقات اپوزیشن لیڈر سے ہوئی، فی الوقت نگراں وزیراعظم کے نام سے متعلق نہیں بتاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ احتساب کا عمل سب پر لاگو ہے، احتساب شفاف طریقے سے ہونا چاہیے، اسی طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ سائفر سے متعلق میری سربراہی میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی دو میٹنگز ہوئیں، موجودہ سیکریٹری خارجہ ایک میٹنگ میں ہمارے ساتھ تھے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیکریٹری خارجہ مبینہ سائفر کے وقت امریکا میں ہمارے سفیر تھے، انہوں نے کہا کہ میری ڈونلڈ لو سے ملاقات ہوئی، ان سے جو گفتگو ہوئی وہ یہاں پیش کی، گفتگو میں سازش کا کہیں دور دور تک تذکرہ بھی نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں جنرل باجوہ، نیول چیف، ایئر فورس کے چیف بھی موجود تھے، سب نے تائید کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت گرانے میں امریکا نے سازش نہیں کی، ہمارے موجودہ وزیر خارجہ نے کہا کہ گفتگو میں سازش کی بات دور دور تک نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا روس سے تعلقات بڑھ رہے تھے اس لیے سازش کی گئی، روس سے تو میری حکومت میں سستا تیل لیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر امریکی سازش سے حکومت معرض وجود میں آتی تو ہم سب کیلئے ڈوب مرنے کا مقام تھا، چیئرمین پی ٹی آئی نے امریکا سے متعلق الگ الگ بیان دیے، انہوں نے دوسرے بیان میں کہا امریکا نے سازش نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا اس طرح کوئی سابق وزیراعظم، پاکستان کے خلاف زہر اگلے گا؟ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا امریکا نے نہیں، فلاں نے سازش کی، فلاں نے نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں یہ سر سے پاؤں تک جھوٹ کا پلندہ ہے، پاکستان کے امریکا سے تعلقات میں دراڑ آگئی تھی، بہتری کیلئے بڑی محنت کی، ہمارے تمام برادر ممالک ناراض تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے چین سے دوبارہ تعلقات بحال کیے، وہیں لائے جہاں نواز شریف نے 2017 میں چھوڑا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کون سا چیلنج اور مشکل ہے جس میں سعودی عرب نے ساتھ نہ دیا ہو، زلزلہ اور سیلاب میں سعودی عرب نے بھائی کی طرح ساتھ دیا، بھائی چارہ کی ایسی مثال مل سکتی ہے؟ ان کو ناراض کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بغیر لالچ کے مدد کرنے والے ملک کے احسان فراموش بن گئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں سعودی عرب سے ایسے تعلقات کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی وادی، بزرگوں، ماؤں، بچوں کے خون سے سرخ ہوگئی، کشمیر کی آزادی، خودارادیت کا مسئلہ طے ہوئے بغیر بھارت سے تعلقات کیسے نارمل ہوسکتے ہیں؟ میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہمیں اچھے ہمسائے کی طرح رہنا چاہیے۔