نگراں وزیر اعظم کا معاملہ جو سیاسی و صحافتی حلقوں میںقیاس آرائیوں کا موضوع بنا ہوا تھا اور متعدد سیاسی، سفارتی اور عدالتی شخصیات کے نام اس حوالے سے گردش میں تھے، بالآخر گزشتہ روز بلوچستان سے علاقائی تعلق اور باعتبار زبان پشتون شناخت رکھنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے بانیوںمیں شامل سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی شکل میں ایک ایسی شخصیت پر اتفاق کی صورت میں انجام کو پہنچا جس کا پہلے کہیں کوئی ذکر نہ تھا۔ نگراں وزیر اعظم کے حوالے سے پچھلے کئی ہفتوں کے دوران ڈیڑھ درجن سے زیادہ نام سامنے آئے جن میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے وابستہ شخصیات بھی شامل تھیں تاہم اسلام آباد کے ایک معتبر ذریعے نے ایک روز قبل جنگ سے گفتگو میں انکشاف کیا تھا کہ اس حوالے سے شہباز شریف سرپرائز دے سکتے ہیں اورپھر ایسا ہی ہوا ۔ قائد حزب اختلاف سے مشاورت میں سینیٹر انوار الحق کے نام پر اتفاق کے بعد صدر مملکت نے اس تجویز پر دستخط کردیے اور ملک کے آٹھویں نگراں وزیر اعظم کا تقرر عمل میں آگیا۔ دستیاب معلومات کے مطابق سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے والد احتشام الحق کاکڑنے اپنے کیریئرکا آغازبطور تحصیلدار کیا تھا جس کے بعد وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائزرہے۔انوارالحق کاکڑ کے دادا قیام پاکستان سے قبل خان آف قلات کے معالج کے طورپرفرائض انجام دیتے رہے۔ بلوچستان میں شورش کے بعد جس صورتحال نے جنم لیا اس میں وہ ریاستی بیانیے کے حوالے سے توانا آواز رہے۔ انوارالحق کاکڑ 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی سے سینیٹر منتخب ہوئے ۔ وہ بلوچستان سے بننے والے دوسرے نگراں وزیراعظم ہیں۔ بلوچستان کے سماجی و سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کیلئے قا بل عمل تجاویز پیش کرنے کے حوالے سے وہ اچھی شہرت رکھتے ہیں ۔ملک کے سب سے کم عمر نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ 1971 میں بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم سن فرانسز ہائی اسکول کوئٹہ سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے کیڈٹ کالج کو ہاٹ میں داخلہ لیا لیکن والد کے انتقال پر واپس کوئٹہ آگئے،انوار الحق کا کڑ اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن بھی گئے ۔انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے سیاسیات اور سوشیا لوجی میں ماسٹرکیا، کیرئیر کا آغااپنے آبائی سکول میں پڑھانے سے کیا.انوار الحق کاکڑ بلوچستان کی سیاست میں پہلی بار 2008 میں منظر عام پر آئے اور ق لیگ کے ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں انہیں کامیابی نہ مل سکی ، اس کے بعدانہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا اورپارٹی میں متحرک رہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ نگراں وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کے انتخاب پر نہ صرف سابقہ حکمراں اتحاد کی جماعتیں متفق ہیں بلکہ تحریک انصاف نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ عسکری قیادت سے بھی ان کے روابط خوش گوار بتائے جاتے ہیں۔ اس اہم منصب کا مسلسل نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے شکار صوبے بلوچستان کے حصے میں آنا بھی خوش آئند ہے ۔نگراں وزیر اعظم کی سربراہی میں نگراں حکومت کا اصل کام عمومی حالات میں دو تین ماہ کی مقررہ مدت کے اندر ملک میں منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے لیکن قوم کو درپیش معیشت اور امن وامان کے سنگین چیلنجوں نے نگراں وزیر اعظم کی ذمہ داری بہت بڑھادی ہے۔ آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی کڑی شرائط پر عمل درآمد اور معاشی بحالی کے سیاسی اور عسکری مشترکہ منصوبے پر پیش رفت بھی نگراں حکومت کو جاری رکھنی ہوگی‘ جدید تعلیم یافتہ ، باصلاحیت اور مسائل کے حل کے حوالے سے منفرد سوچ رکھنے والی شخصیت ہونے کی بنا پر توقع ہے کہ نگراں وزیر اعظم ان ساری ذمے داریوں کو بحسن و خوبی نبھائیں گے۔