• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی پرچم اور قومی ترانہ کسی بھی ملک و قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ 14 اگست کو جشن آزادی کے موقع پر مختلف تقاریب میں پاکستانی سبزہلالی پرچم کے سائے تلے کھڑے ہوکر قومی ترانہ پڑھتے ہیں۔ ملک بھر میں ہر سُو قومی پرچم کی بہار نظر آتی ہے اور ہر عمر کے افراد اس کے رنگوں میں رنگ جاتے ہیں جبکہ ان کی زبان پر قومی ترانہ اور دیگر ملی نغمے ہوتے ہیں۔ اس پُرمسرت موقع پر آئیے پاکستان کے قومی پر چم اور قومی ترانہ کے انتخاب اور اس کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

قومی پرچم

پرچم کسی بھی ملک، کسی بھی قوم یا تنظیم کے نظریے کا عکاس ہو تاہے۔ پاکستان کا قومی پرچم سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے۔ سبز رنگ مسلم اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ سفید رنگ غیر مسلم اقلیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ سبز حصے کے بالکل درمیان میں ہلال (چاند) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہے۔ سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا روشنی اور علم ہے۔ 

پاکستان کا قومی پرچم امیرالدین قدوائی نے قائداعظمؒ کی ہدایت پر تیار کیا اور قیامِ پاکستان سے 3دن قبل یعنی 11اگست 1947ء کو اسے قومی پرچم کا درجہ دیا گیا۔ انگریزوں نے جب تقسیم ہند کا اعلان کیا توسندھ کی صوبائی اسمبلی نے تقسیم کی شرائط کے مطابق اس کے حق میں تجویز منظور کی، پاکستان کی طرف سے قائداعظمؒ اور بھارت کی طرف سے پنڈت جواہر لال نہرو کو اس کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس صبح وائسرائے کے گھر اور سہ پہر اورنگ زیب روڈ دہلی میں واقع قائد اعظمؒ کی رہائش گاہ پر ہوتے تھے، جس میں صبح کے نتیجے اور آئندہ اجلاس کے ایجنڈے پر غور اور دوسرے مسائل کا تصفیہ کیا جاتا۔

ایک دن قائداعظمؒ نے فرمایا، ’’وائسرائے نےپاکستانی پرچم کے متعلق بحث چھیڑی اور کہا کہ بھارت کے نمائندے تو اس بات پر رضامند ہیں کہ باقی نوآبادیوں (کالونیز) کی طرح اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم یعنی ’’یونین جیک‘‘ کےلیے مخصوص کردیں، آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا کہ اپنے رفقاسے مشورہ کرکے مطلع کروں گا‘‘۔ 

اس پرسردار عبدالرب نشتر نے گزارش کی،’’یہ تجویز ماننی نہیں چاہیے، ہماری صورتحال باقی ماندہ برطانوی نوآبادیوں سے جداگانہ ہے، وہ ممالک برطانیہ کے قبضے میں ہیں، برطانوی پرچم سے ان کا خاص تعلق ہے، ہم تو برطانیہ کے قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہمارا ان سے نہ نسلی تعلق ہے اور نہ مذہبی۔ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہوگا۔ ایسا پرچم ہماری غلامی کی یاد گار رہے گا‘‘۔ سب کی متفقہ رائے یہی قرار پائی کہ وائسرائے کی تجویز نہیں ماننی چاہیے، لہٰذا قائداعظم نے وائسرائے کو کہا کہ بھارت کی اپنی صوابدید ہے لیکن پاکستان کئی وجوہات کی بنا پر یونین جیک کو پرچم میں جگہ نہیں دے سکتا۔

بالآخر طے پایا کہ چونکہ پاکستان میں کئی اقلیتیں موجود ہیں، اس لیے اگر سب کی نمائندگی کےلیے علیحدہ علیحدہ رنگ یا نشان کے پرچم رکھے گئے توموزوں نہ ہوگا، اس کے بجائے ایک حصہ سفید رکھا جائے جو تمام رنگوں کا مجموعہ ہے۔ اس طرح ایک تو سب اقلیتوں کی نمائندگی ہوجائے گی اور دوسرا سفید رنگ کا موجود ہونا ہمارے اسلامی ملک کی امن و صلح کی پالیسی کا بھی مظہر ہوگا۔ قائداعظمؒ نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پاکستان کے پانچ صوبوں کی نمائندگی کے لیے پرچم میں پانچ ستارے بھی رکھے جائیں؟ سردارعبدالرب نشتر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ریاستوں کا الحاق بھی ہوگا۔

چند روز طویل بحث رہی اور پرچم کے کئی ڈیزائن تیار کیے گئے۔ پھر قائداعظم کے ذہن میں ایک نمونہ آیا، جس کا ڈیزائن امیرالدین قدوائی نے تیار کیا۔ ماسٹر الطاف حسین اور افضال حسین نے سب سے پہلا پرچم تیار کیا۔ تاہم، کچھ عرصے بعد پرچم کے حوالے سے خاصی دشواریاں سامنے آئیں، تب تک قائداعظمؒ رحلت فرما چکے تھے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کی طرف سے دشواریوں کا ذکرجب وزراء اور اسمبلی کے سامنے کیا گیا تو مسلسل بحث کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ پرچم کو اُسی حالت میں رہنے دیا جائے، جس طرح مجلس دستور ساز میں فیصلہ کیا گیا تھا۔

قومی ترانہ

قومی ترانے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کے عکاس ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کے دل میں اپنا قومی ترانہ بسا ہوتاہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا قومی ترانہ اپنی دھن، تازگی، نیرنگی، جذبہ حب الوطنی اور احترام میں ثانی نہیں رکھتا۔ جب بھی یہ ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو ہر بار دل میں جذبہ حب الوطنی اور جذبہ آزادی کو تازہ دم کردیتا ہے۔ 

یوم آزادی کی پُروقار تقاریب ہوں یا عام دنوں میں اسکول اسمبلی، حکومتی اجلاس یا اسٹیڈیم میں میچ، ہرایک کے آغاز سے قبل قومی ترانے کی دُھن کان میں پڑتے ہی ہم باادب کھڑے ہوجاتے ہیں اور قومی ترانے کی دھُن کے ساتھ اپنی دھڑکنیں ملاتے ہوئے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر اس کے جادوئی اثر رکھنے والے الفاظ میں کھو جاتے ہیں۔

14اگست 1947ء کو جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس وقت اس کا اپناقومی ترانہ نہیں تھا۔ 1949ء میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی ایماء پر قومی ترانے کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس یکم مارچ 1949ء کو کراچی میں سردار عبدالرب نشتر مرحوم کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا، جس کے بعد اخبارات کے ذریعے ملک کے شعراء اور موسیقاروں کو قومی ترانہ لکھنے اور اس کی دھن ترتیب دینے کی دعوت دی گئی ۔ کمیٹی کو کئی دھنیں اور شاعری موصول ہوئی مگر کوئی بھی ترانہ کمیٹی کے وضع کردہ معیار پر پورا نہیں اترا۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان کے قومی ترانے کی دھن پہلے تیار ہوئی اور بعد میں اس پر شاعری کی بُنت کی گئی۔ قومی ترانے کی معرکۃ الآراء دھن احمد غلام علی چھاگلہ نے ترتیب دی تھی، جسے پہلی بار ریڈیو پاکستان پر بہرام سہراب رستم جی نےپیانو پر پیش کیا۔ اس دھن کو خوبصورت الفاظ سے ہم آہنگ کرنے والے پاکستان کے شاعر حفیظ جالندھری تھے۔ 

تاہم، بعد میں اس کی مکمل کمپوزنگ میں 12آلاتِ موسیقی اور 38ساز استعمال کیے گئے۔ پاکستان کی مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے لکھے ترانے کو ’قومی ترانے‘ کے طور پر منظور کیا اور یہ ترانہ 31اگست 1954ء کو ریڈیو پاکستان سے پہلی بار نشر کیا گیا۔ قومی ترانے کو پہلی بار آواز دینے والی شخصیات میں احمد رشدی سمیت کئی نامور گلوکار شامل تھے۔