• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ نگران وزیراعظم کی نامزدگی مسئلہ فیثا غورث بنی رہی، درجنوں کے حساب سے نام زیر بحث آئے مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ کسی کو علم نہ تھا کہ نگران وزیراعظم کون ہو گا مگر پھر ایسا نام سامنے آیا جس کا پورے فسانے میں ذکر نہ تھا۔ یہ کرشماتی نام سمجھداروں کا انتخاب ہے ۔انوار الحق کاکڑ دھیمے مزاج کے سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں، ان کے سینے میں پاکستان سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگرچہ ان کا تعلق درمیانی طبقے سے ہے مگر وہ پاکستان کے عام آدمی کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دیگر باتوں سے پہلے یہ ضروری ہے کہ انوار الحق کاکڑ کی شخصیت اور خاندانی پس منظر کا جائزہ لیا جائے، ان کے دادا قیام پاکستان سے پہلے خان آف قلات کے معالج رہے، انوار الحق کاکڑ کے والد احتشام الحق کاکڑ نے اپنی ملازمت کا آغاز تحصیلدار کی حیثیت سے کیا اور مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ضلع قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ میں واقع علاقے کان مہترزئی میں پیدا ہوئے، کاکڑ پشتونوں کا معروف قبیلہ ہے، کہتے ہیں کہ سندھ میں بسنے والے چاچڑ بھی دراصل کاکڑ ہی ہیں۔ انوار الحق کاکڑ کے تعلیمی پس منظر پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے ایک مشنری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ کیڈٹ کالج کوہاٹ چلے گئے، اس دوران ان کے والدکا انتقال ہو گیا، جس کے بعد انوار الحق کاکڑ کو کوئٹہ ہی کو مسکن بنانا پڑا۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے سیاسیات اور سماجیات میں ماسٹرز کیا۔ عملی زندگی کی ابتدا میں انوار الحق کاکڑ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے بحیثیت استاد اپنے آبائی اسکول سے پڑھانا شروع کیا چونکہ انوار الحق کاکڑ زندگی کی سختیوں سے واقف تھے سو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ان کے سینے میں دل دھڑکتا رہا، یہی دھڑکن انہیں سیاست میں لے آئی۔ انہیں کارزارِ سیاست میں متعارف کروانے کا سہرا سرور خان کاکڑ کے سر ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ انوار الحق کاکڑ بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر پہلی بار 2008ء میں نمایاں ہوئے، جب انہوں نے ق لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے کوئٹہ شہر سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا البتہ وہ کامیابی سے ایک قدم پیچھے رہے۔ انہیں 2015ء میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے حکومت بلوچستان کا ترجمان بنایا، ترجمانی کے اس دور میں انہیں قومی سیاسی رہنماؤں کے علاوہ عسکری قیادت اور ملک بھر کے صحافیوں سے قربت کا موقع ملا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے، جنرل عامر ریاض کور کمانڈر کوئٹہ جبکہ عاصم سلیم باجوہ فوج کے ترجمان تھے، انہی دنوں میں ہمیں اکثر کوئٹہ اور گوادر میں بلایا جاتا رہا۔

انوار الحق کاکڑ سے بڑی طویل نشستیں ہوئیں، یہیں سے دوستی کی ابتدا ہوئی۔ اسلام آباد کی ایک معروف مارکیٹ میں ان سے کئی یادگار ملاقاتیں رہیں۔ 2018ء کے آغاز میں بلوچستان سے ن لیگی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انوار الحق کاکڑ سرفہرست تھے۔ 2018ء میں انوار الحق کاکڑ بلوچستان سے آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئے، انہوں نے سینیٹ میں کئی یادگار تقریریں کیں، اس دوران انہوں نے این ڈی یو کے علاوہ کئی بیرونی یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے لیکچر دئیے۔ انوار الحق کاکڑ پڑھے لکھے سمجھدار اور صلح جو سیاست دان ہیں، وہ زندگی کے مسائل کا درست مشاہدہ کرتے ہوئے جب گفتگو کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی فلاسفر بول رہا ہو، انہیں انگریزی، اردو، فارسی، پشتو، بلوچی اور براہوی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔

دانشورانہ سوچ کے حامل وائس آف بلوچستان کے سربراہ سابق دور میں چیئرمین پی ٹی آئی سے بھی ملتے رہے چونکہ ان کی پارٹی ان کی اتحادی تھی۔ یاد رہے کہ باپ کے سیکرٹری جنرل منظور کاکڑ بھی بلوچستان کی مضبوط آواز ہیں۔ منظور کاکڑ ہمارے گورنمنٹ کالج لاہور کے دوست منیر کاکڑ کے بھائی ہیں۔ انوار الحق کاکڑ کے نگراں وزیراعظم بننے پر ایک بلوچ سردار نے خفگی کا اظہار کیا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ انوار الحق کاکڑ کوئی بڑے جاگیر دار یا سردار نہیں ہیں بلکہ بلوچستان اور پاکستان سے پیار کرنے والے درمیانی طبقے کے فرد ہیں۔ خیال ہے کہ انوار الحق کاکڑ خود کو سیاسی تنازعات سے دور رکھیں گے اور پچھلے سولہ مہینوں کی پر تشدد سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ایک عظیم محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ان سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ سیاسی عدم استحکام سے گریز کریں گے، کرپٹ لوگوں سے دور رہیں گے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ان کی نامزدگی کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کے اتحادی ٹولے کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ بقول شاعر خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین