ایک ہوتا ہے ظاہری حسن اور دوسرا ہوتا ہے باطنی حسن..... حسن بہرحال متاثر کرتا ہے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ باطنی حسن کا تاثر دیرپا ہوتا ہے جبکہ ظاہری حسن کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ منظر بدل جاتا ہے اور ظاہری حسن نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن باطنی حسن منظر بدلنے کے باوجود ایک یاد بن کر، ایک خوشگوار حیرت یا تاثر بن کر زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ ظاہری حسن کا تعلق قدرتی مناظر، ماحول، انسانی شخصیت یا چہرے کے نقش و نگار سے ہوتا ہے جبکہ باطنی حسن کا عکس انسانی کردار، خصائل، عادات اور قومی اطوار و انداز میں نظر آتا ہے۔ میں نے چہروں کی خوبصورتی کو بیس تیس برسوں میں ڈھلتے اور پھر بدصورتی میں بدلتے دیکھا ہے، بڑی بڑی وجہیہ اور بارعب شخصیات کو لاغری کا شکار ہو کر محتاج ہوتے دیکھا ہے لیکن باطنی حسن کو زوال کا شکار ہوتے کبھی نہیں دیکھا، خوش اخلاقی، وعدہ ایفائی، بے لوث خدمت، مہمان نوازی، حق گوئی، دکھ سکھ میں ساتھ، مسکراہٹوں کی فتوحات وغیرہ وغیرہ کو نہ کبھی زوال پذیر دیکھا اور نہ ہی کبھی تاثیر سے محروم دیکھا۔
ایک مہمان یا سیاح کا مشاہدہ قدرے سطحی ہوتا ہے اس لئے ان مشاہدات میں ابدی سچائیوں کی تلاش سعی لاحاصل ہوتی ہے۔ میرا 1980ء سے امریکہ آنا جانا رہا ہے۔ اس بار میرا قیام قدرے طویل بھی تھا اورپرامن بھی، اسلئے مجھے کچھ ایسے پہلو دیکھنے کا موقعہ ملا جو دلچسپ بھی تھے، منفرد اور حیران کن بھی ..... بلاشبہ میں جس علاقے میں تھاوہ قدرتی حسن سے اس قدر مالا مال تھا کہ بس انسان ہر لمحہ داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چھوٹی چھوٹی نہایت سرسبز و شاداب پہاڑیوں اور میدانی علاقوں پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی آبادیاں یا قصبے اور ان پہاڑیوں کے ساتھ بہتا ہوا جھیل یا سمندر کا پانی اورجنگلات۔ صفائی اس قدر کہ آپ کو کسی سڑک پہ آوارہ کاغذ کا ٹکڑا تک نظر نہ آئے لیکن ان کے علاوہ جو چیز میرے دل کو بہت اچھی لگی وہ واک، جاگنگ یا سائیکلینگ کرنے والوں کے لئے میلوں پر مشتمل ٹریک اور پہاڑوں کو پیدل فتح کرنے کے لئے راستے اور سائیکل سواروں کے لئے سہولتیں ۔ کوئی سڑک یا گلی دونوں طرف فٹ پاتھوں کے بغیر نہیں بنتی اور پھر ان کے ساتھ موٹر ویز، فری ویز اور چھ چھ آٹھ آٹھ رویہ سڑکیں جو فاصلوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں۔ ہر شے، ہر انسان، ہرکار، ہر تعمیرات وغیرہ قانون کے تابع۔ قانون شکنی کا کوئی تصور ہی نہیں لیکن اگر کوئی ذہنی مریض قانون شکنی کا ارتکاب کرے تو قانون کی نظر میں سب برابر، نہ کوئی حاکم اور نہ ہی کوئی محکوم۔ میں جب شام کو شفاف ندی کے کنارے واکنگ ٹریک پر چلتا ہوا جنگلوں اور سبزوں سے نکلتا تو اپنے ڈیفنس لاہور کو بہت یاد کرتا جو مالی حساب سے کھربوں کی آبادی ہے، جس پر عساکر پاکستان کو ناز ہے لیکن جہاں جابجا گندگی کے مناظر فٹ پاتھوں کا قحط، سیرگاہوں کی شدید قلت اور بڑے لوگوں کے دہائیوں سے خالی پلاٹوں سے دھول کے بادل اٹھتے نظر آتے ہیں اور قریبی گھروں میں مٹی پھیلاتے ہیں۔ فٹ پاتھ تو درکنار ڈی ایچ اے اتنا بھی نہیں کرتی کہ شاہراہوں کے دونوں طرف پیدل چلنے والوں کو گہرے کھڈوں اور کیچڑ سے ہی بچانے کا انتظام کرے، خالی پلاٹوں میں گھاس لگا دے اور ان میں ٹریفک کا راستہ بند کردے تاکہ دھول کے بادل نہ اڑیں۔ چلئے چھوڑیئے میں کس کا ذکر لے بیٹھا۔ کوئی تین چار برس قبل میں نے ڈی ایچ اے لاہور سے درخواست کی کہ رمضان میں موسم کی شدت کے سبب گھروں میں بند روزے داروں کو نہ افطاری کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی سحری کے خاتمے کا۔ آپ مرکزی مسجد میں سائرن لگا دیجئے جسے سحری اور افطاری کے وقت چند سیکنڈ کے لئے بجا دیجئے۔ روزے داروں کو سہولت ہو جائے گی۔ بریگیڈیئر صاحب نے فرمایا ’’اس سے لوگوں کی نیند میں خلل پڑے گا‘‘ عرض کیا حضور تو وہ اذان سے بھی پڑتا ہوگا۔
ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ فطرت کا حسن، قدرتی مناظر، ظاہری خوبصورتی بھی متاثر کرتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ گہرا اور دیرپا اثر باطنی حسن کا ہوتا ہے۔ باطنی حسن انسان کا بھی ہوتا ہے اور معاشرے یا ادارے کا بھی۔ اس بار امریکہ کی سائینسی ترقی اور الیکٹرک کاروں نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ الیکٹرک کار دو سو میل تک بجلی پر مفت چلتی ہے اور پھر اسے چارج کرنا پڑتا ہے جس کا انتظام تقریباً ہر گیس اسٹیشن پر موجود ہے اور اپنے گھروں میں بھی موجود ہے۔ چارج خاصا سستا ہے اب گوگل نے بغیر ڈرائیور کار ایجاد کرلی ہے جس میں بیٹھ کر آپ اسے اپنی منزل بتا دیں، خود کمپیوٹر پہ کام کرتے رہیں اور وہ کار خود بخود بازاروں، سڑکوں اور شاہراہوں سے گزرتی آپ کو منزل پہ پہنچا دے گی۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے ایجادات کا سلسلہ جاری ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
امریکی معاشرے میں ان گنت برائیاں ہیں جو نفرت کا سبب بنتی ہیں اور یہ عام طور پر جنسی بے راہ روی اور بے لگام آزادی کا ثمر ہیں لیکن اس بار مجھے تین ایسے تجربات ہوئے جو اس معاشرے کے باطنی حسن کی عکاسی کرتے تھے۔ میرا ایک قریبی عزیز ایک آئی ٹی کمپنی میں کام کرتا ہے۔ وہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں تین کمپنیاں تبدیل کر چکا ہے۔ ایک روز وہ مجھے اپنی کمپنی دکھانے لے گیا۔ ہم پارکنگ ایریا میں کار پارک کر کے جارہے تھے تو ایک بھاری بھر کم، عام کپڑوں میں ملبوس امریکی نظر آیا جس نے مسکرا کر ہم سے ہیلو ہائے کیا، خیریت پوچھی اور دعائیہ فقرے کہہ کر چلا گیا۔ میرے عزیز نے مجھے بتایا کہ یہ میری کمپنی کا مالک ہے اور ارب پتی ہے۔ وہ ہر ملازم سے برابری کی سطح پر ملتا، خوش اخلاقی اور مسکراہٹ سے پیش آتا، نہ رعونت نہ دولت کا نشہ۔ مجھے اس تجربے نے متاثر کیا اور مجھے اپنے اسلامی ملک کے صنعت کار، دولت مند اور مغرور مالکان بہت یاد آئے۔ ہر کمپنی میں فری ناشتے فری کافی اور اسنیک وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے۔ دوران گفتگو اس نوجوان کے ایک انکشاف نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ اس نے بتایا کہ میں ہر سال زکوٰۃ اور صدقہ کی رقم ڈالروں میں شوکت خانم کو بھجواتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کسی دوسرے ادارے کو کیوں نہیں بھجواتے۔ جواب ملا کہ دنیا بھر میں کچھ خیراتی، رفاہ عامہ وغیرہ کے ادارے امریکی حکومت کی منظور شدہ لسٹ پر ہیں جن میں شوکت خانم بھی شامل ہے۔ میں جتنی زکوٰۃ صدقہ خیرات چندہ ڈالروں میں شوکت خانم کو بھجواتا ہوں اتنی ہی رقم میری کمپنی اپنی طرف سے اس میں ڈال کر بھجواتی ہے۔ اس سال میں نے اپنی کمپنی کے ذریعے دو ہزار ڈالر بھجوائے تو ان میں دو ہزار ڈالر کمپنی نے بھی ڈالے۔ باطنی حسن کی یہ ادامجھے بہت اچھی لگی ورنہ کمپنی کہہ سکتی ہے کہ ہم صرف اپنے ملک کے خیراتی اداروں کی مدد کریں گے لیکن اصول انسانی کی خدمت ہے جو جغرافیائی حدود سے ماوراء ہے۔ دنیا کے رئیس ترین شخص بل گیٹس کے انسانی خدمت کے کارنامے بھی تمام ممالک کے لئے ہیں جن میں پاکستان کا پولیو پروگرام بھی شامل ہے۔ آپ کو علم ہے کہ بل گیٹس امریکی ہے۔ باطنی حسن کی تیسری علامت بھی متاثر کن تھی۔ میرے عزیز نے مجھے بتایا کہ میں نے جب یہ کمپنی جوائن کی تب یہ نئی نئی بنی تھی۔ یہاں کمپنیوں کی روایت ہے کہ یہ اپنے ملازمین کو کمپنی کے شیئرز نہایت معمولی قیمت پر دیتی ہیں۔ جب کمپنی ترقی کرتی ہے تو شیئر کی قیمت کئی سو گنا بڑھ جاتی ہے تب ان کو فروخت کر کے آپ راتوں رات کروڑ پتی بن جاتے ہیں اگرچہ ٹیکس بہت دینا پڑتا ہے۔ میرے اس عزیز نے کمپنی کے شیئرز (اسٹاکس) فروخت کر کے نہ صرف ہر قسم کے سود سے نجات حاصل کرلی ہے بلکہ اتنا کما لیا ہے کہ عمر بھر کھانے کو کافی ہے۔ مطلب یہ کہ وہاں صنعت کار اور کاروباری حضرات اپنی دولت میں اپنے کارکنوں کو بھی شریک کرتے ہیں۔ کیا پاکستان کا کوئی صنعت کار یا بڑا کاروباری اپنے ملازمین کو اپنی دولت اور منافع میں اس طرح شریک کرتا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ میں اس ادا، سوچ یا پالیسی کو باطنی حسن کی علامتیں سمجھتا ہوں۔ جوشخص، ادارہ یا معاشرہ جھوٹ، ملاوٹ، غرور، ہوس، خوشامد، قانون شکنی، رشوت اور بے انصافی سے پاک ہو اور خدمت کا جذبہ رکھتا ہو وہ باطنی حسن سے منور ہوتا ہے، وہ متاثر کرتا ہے۔ باطنی حسن کا تاثر دیرپا ہوتا ہے جبکہ ظاہری حسن بقول شاعر؎
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ
نوٹ: غوثیہ شریعہ کالج مظفرگڑھ (رجسٹرڈ) میں یتیم و مستحق طلبا و طالبات کو بالکل مفت تعلیم، رہائش، خوراک، علاج، کپڑے، کتابیں وغیرہ مہیا کی جاتی ہیں۔ میں ان کے معاملات کی نگرانی کرتا ہوں۔ اس وقت 240 طلبہ و طالبات میٹرک، ایف اے، بی اے، ایم اے کررہی ہیں اور ساتھ ساتھ شریعہ بورڈ کے امتحانات بھی دیتی ہیں ساٹھ بچیاں ایم اے کرچکی ہیں ، کردارسازی پر بہت توجہ دی جاتی ہے ہمارے پاس پبلسٹی کے لئے وسائل نہیں مخیر خواتین و حضرات سے زکواۃ صدقات وغیرہ سے مدد کی اپیل ہے۔ رابطہ محمد طارق 0300-3312052 براہ راست بینک میں بھجوانے کی تفصیل بینک الحبیب مظفر گڑھ محمد طارق اکائونٹ نمبر 0117-0081-002082-01-7
یتیم اور بیوہ کی خدمت کیجئے اور جنت میں گھر بنایئے۔